Maktaba Wahhabi

199 - 234
ہے، بخلاف جہاد فی سبیل اللہ اور غزوات میں خرچ کرنا، اور مساکین کو دینا، یہ فرض کفایہ ہے، یا مستحب، البتہ کبھی کبھی فرض عین بھی ہو جاتا ہے۔ اور یہ اس وقت جبکہ کوئی دوسرا دینے والا نہ ہو، کیونکہ بھوکے کو کھانا کھلانا فرض عین ہے، اور اسی بناء پر حدیث میں وارد ہے: لَوْ صَدَقَ السَّائِلُ لَمَا اَفْلَحَ مَنْ رَدَّہٗ(مسند احمد) اگر سائل سچا ہے تو اُسے ردّ کرنے والا فلاح کو نہیں پہنچے گا۔ ابو حاتم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں علم و حکمت کی بہت سی باتیں ہیں۔ آل داؤد علیہ السلام کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عقلمند پر یہ حق ہے کہ اپنے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کر دے۔ ایک گھڑی اپنے رب کے حضور میں مناجات، دعاء کرے، اور ذکر و فکر میں صرف کرے۔ ایک گھڑی اپنے نفس اپنی جان کا محاسبہ کرے، ایک گھڑی دوست و احباب سے مل بیٹھے جو اس کو اس کے عیوب سے باخبر کریں، اور ایک گھڑی حلال و جمیل لذتوں سے بہرہ ور ہو کیونکہ اس گھڑی سے دوسری گھڑیوں کو مدد ملا کرتی ہے۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مباح اور اچھی جائز لذتوں میں وقت خرچ کرنا بھی ضروری ہے، اس سے دوسری ساعتوں کو تقویت پہنچتی ہے، اور اسی لیے فقہاء نے کہا ہے: دین و مروت کی اصلاح و بہبود ہی عدالت ہے۔ سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: ’’میں کبھی کبھی باطل سے بھی جان کو خوش کر لیا کرتا ہوں تاکہ حق کے لیے مجھے مدد ملے‘‘۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لذتیں، شہوتیں اسی لیے پیدا کی ہیں کہ مخلوق کی مصلحتیں ان سے پوری ہوتی ہیں، اور اس سے اپنے فوائد و منافع حاصل کر لیا کرتے ہیں۔ مثلاً غضب و غصہ کو اس لیے پیدا کیا کہ اس کے ذریعہ ضرر رساں اور تکلیف دہ چیزوں کی مدافعت ہو سکے اور شہوتیں وہی حرام کی ہیں جو ہمارے لیے مضرت رساں ہیں۔ لیکن وہ مباح اور جائز شہوات جن کے ذریعہ حق پر چلنے کی استطاعت ملتی ہو، تو ایسی شہوات اعمال صالحہ نیک کام ہوں گے۔ اور اسی لیے حدیث میں وارد ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ
Flag Counter