Maktaba Wahhabi

217 - 234
بھیجے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ جواب میں یہ بھی ایسا ہی کہے کہ یہ تعدی اور زیادتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے اس پر کچھ نہیں کیا، بلکہ جو کچھ کیا ہے اس آدمی نے کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ ِاللّٰه شُھَدَآء بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی(مائدہ:8) مسلمانو! اللہ واسطے انصاف کے ساتھ گواہی دینے کو آمادہ رہو، اور لوگوں کی عداوت تمہارے اس جرم کا باعث نہ ہو کہ تم معاملات میں انصاف نہ کرو، ہر حال میں انصاف کرو کہ شیوۂ انصاف پرہیزگاری سے قریب تر ہے۔ اس آیت میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ کفار سے بغض و عناد کی وجہ سے اعتداء اور زیادتی نہ کیا کرو۔ صاف صاف کہہ دیا: اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی(مائدہ:8) ہر حال میں انصاف کرو کہ شیوۂ انصاف پہریز گاری کے قریب تر ہے۔ پس عزت و آبرو کے بارے میں بھی عدوان اور زیادتی حرام ہے، حالانکہ اس کا حق ہے، پس اگر ایذاء اور تکلیف ایسی پہنچائے جس میں قصاص و بدلہ لیا جا سکتا ہے، مثلاً کسی نے کسی پر بددعا کی تو مظلوم بلا عدوان اور زیادتی کے بد دعا کر سکتا ہے، لیکن اگر حق اللہ اس کے متعلق ہوتا ہے مثلاً جھوٹ بولا تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ یہ بھی جھوٹ بولے۔ اسی طرح فقہاء کہتے ہیں کہ کسی نے کسی کو جلا کر مار ڈالا، یا غرق کر دیا، یا گلا گھونٹ کر مار ڈالا، یا اس کے مثل کسی اور طریقے سے قتل کر دیا تو اس کے لیے وہی کیا جائے جو اس نے کیا ہے لیکن ملحوظ رہے کہ وہ سزا فی نفسہٖ حرام نہ ہو، مثلاً شراب پلائی تو اس کے بدلہ اور قصاص میں شراب پلائی جائے۔ یا لواطت کی تو اس کے ساتھ لواطت کی جائے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ جلا کر ما دینے، یا غرق کر دینے، یا گلا گھونٹ کر مار دینے کی عقوبت و سزا، قود بالسیف ہے یعنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے۔ لیکن ہم جو پہلے کہہ چکے ہیں وہی کتاب ااَللّٰه اور کتاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہ ہے۔
Flag Counter