Maktaba Wahhabi

52 - 234
وصول کیا جا سکے۔ اور امین کاتب ومنشی(یعنی اکاؤنٹینٹ، آڈیٹر) کی ضرورت ہے کہ ان کی قابلیت سے مال محفوظ رہے، اور مال کی حفاظت ہو سکے اور یہی حال و حکم ہے امارتِ جنگ کا، صاحب علم و دین کے مشورے سے امیر جنگ سپہ سالار قائم کیا جائے، اور یہ ہر دو مصلحتیں ملحوظ رکھی جائیں اور یہی حال و حکم تمام ولایتوں﴿حکومتوں﴾ ، اور ہمہ قسم کی امارتو ں﴿وزارتوں﴾ کا ہے۔ اگر ایک آدمی سے مصلحت امارت پوری نہ ہو سکے تو دو یا تین یا زیادہ آدمی رکھے جائیں۔ اور ترجیح اصلح﴿بہتر﴾ کو دی جائے۔اور متعدد والی، گورنر اور سردار مقرر کئے جا ئیں، جب ایک سے کام انجام نہ پاتا ہو، بہرحال اصلح﴿بہتر﴾ کو مقدم رکھا جائے۔ اور ولایت قضاء(عدلیہ کے ججوں) کے لیے اعلم﴿قرآن و حدیث کا سب سے بڑا عالم﴾ اورع﴿بہت زیادہ عبادت کرنے والا﴾ اور اکفاء﴿قانع و صابر﴾ کو مقدم رکھا جائے، اور اگر ایک اعلم ہے اور دوسرا اورع صاحب تقویٰ ہو تو غور کیا جائے کہ اورع کی خواہش اور اعلم کا اشتباہ حکم﴿فیصلے﴾ کے ظہور اور حکم کے اشتباہ میں خلل انداز تو نہیں ہے کیونکہ حدیث شریف میں واردہے: اِنَّ اللّٰه یُحِبُّ الْبَصِیْرَ النَّاقِدَ عِنْدَ وُرُوْدِ الشُّبُھَاتِ وَ یُحِبُّ الْعَقْلَ عِنْدَ حُلُوْلِ الشَّھَوَاتِ اللہ تعالیٰ بصیر و ناقد کو دوست رکھتا ہے شبہات واقع ہونے کے وقت اور شہوات کے آڑے آنے کے وقت عقل کو محبوب رکھتا ہے۔ اور اکفاء کے مقابلہ میں رکھا جائے گا۔ اگر قاضی کو والی حرب، امیر جنگ یا والی عامہ﴿یعنی گورنر﴾ کی تائید حاصل ہے تو قضاء﴿فیصلے﴾ کے لیے اعلم﴿زیادہ علم والے﴾ اور اورع﴿ یعنی صاحب ِ تقویٰ﴾ کو ترجیح دی جائے گی۔ قاضی اعلم اور قاضی اورع کو مقدم رکھا جائے گا۔ اور اگر علم و ورع کے مقابلہ میں قوت و اعانت کی ضرورت زیادہ ہے تو اکفاء کو مقدم رکھا جائے کیونکہ قاضی مطلق کی شرط یہی ہے کہ وہ عالم، عادل اور نفادِ حکم پر قادر ہو، اور قضاء پر یہ موقوف نہیں۔ بلکہ مسلمانوں کے ہر والی کے لیے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ پس مذکورہ صفات و اوصاف میں سے کسی صفت کسی وصف میں بھی نقصان ہوگا تو اس کی وجہ سے خلل واقع ہونا ضروری ہے، اور کفایت جس قسم اور جس طرح کی بھی ہو، قہر و غضب کی ہو،
Flag Counter