Maktaba Wahhabi

73 - 234
ہوئے لے سکتا ہے۔ اگر امام نے مالِ غنیمت جمع کرنے سے روک دیا ہے، اور حا لات کچھ ایسے ہی ہیں، اور امام نے حالات کی بنا پر یہ طے کر لیا کہ وہ جو چاہے گا کرے گا، تو اس وقت دونوں متقابل ہوتے ہیں، تو دونوں قول چھوڑ دئے جائیں، اور درمیانی راہ اختیار کی جائے، اس لیے کہ دِیْنُ االلّٰه وَسْطٌ۔ اللہ کے دین کی راہ متوسط(یعنی معتدل) ہے۔ مال کی تقسیم میں عدل وانصاف یہ ہے کہ پیادہ﴿پیدل فوج﴾ کو ایک حصہ اور سوار کے لیے جو﴿اپنا﴾ عربی گھوڑا رکھتا ہے تین حصے۔ ایک حصہ اس کا اور دو حصے گھوڑ ے کے۔﴿آجکل جو اپنی گاڑی و ٹینک چلائے وہ بھی اسی حکم میں ہے﴾ چنانچہ غزوۂ خیبر کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ بعض فقہاء کہتے ہیں: سوار کو دو حصے دئے جائیں ایک حصہ اس کااور ایک اس کے گھوڑے کا۔ مگر پہلا قول صحیح ہے۔ صحیح حد یث اس پر دلا لت کر تی ہے، اس لیے کہ گھوڑے کے ساتھ اس کا سائیس﴿کھانا پینا اور دیگر خدمت و خرچہ﴾ وغیرہ بھی ہوا کرتا ہے۔ اس لیے گھوڑا زیادہ محتاج ہے، اور پیادہ کے مقابلہ میں سوار﴿مجاہد﴾ سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ بعض فقہاء کا قول ہے عربی گھوڑے اور ہجین گھوڑے کو برابر حصہ دیا جائے۔ اور بعض کا قول ہے عربی گھوڑے کو دو حصے دئے جائیں اور ہجین کو ایک حصہ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے مروی ہے۔ اور ہجین اس گھوڑی کو کہتے ہیں جس کی ما ںنبیطہ ہو، اسے برذون بھی کہتے ہیں، بستری بھی کہتے ہیں، خصی اور غیر خصی گھوڑے کا یہی حکم ہے۔ سلف اُمت اس گھوڑے کو جو کسی گھوڑے پر نہ کودا ہو، کچھ حیثیت سمجھتے ہیں، کیونکہ اس میں قوت اور تیزی زیادہ ہوا کرتی ہے، اس کا کوئی صہیل نہیں ہے، اور اس کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے۔ اگر مالِ غنیمت میں مسلمان کا مال ہے خواہ زمین ہو یا مال منقولہ اور تقسیم سے پہلے لوگ اُسے جانتے بھی تھے، تو یہ مال اُسے واپس کر دیا جائے اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ مالِ غنیمت کے متعلق بہت سی تفریعات اور بہت سے احکام ہیں۔ اور بہت سے آثار اور اقوالِ سلف موجود ہیں۔ بعض متفق علیہ ہیں بعض میں اختلاف ہے لیکن موقع اس کے بیا ن کا نہیں ہے، یہاں چند جامع جملے ہم نے پیش کردیئے ہیں۔
Flag Counter