کرنا حالانکہ جو صرف جھنکار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ یہ بوڑھی ہے جوان ہے حسین ہے یا نہیں جب کہ چہرے سے تو صاف پتہ چلتا ہے تو بتلائیں جھنکار سے زیادہ فتنہ ہے کہ زیب و زینت و حسن و رعنائی سے بھرپور مست شباب دوشیزہ کا کھلا چہرہ کہ جس کے چہرے کو کشش اور معصومیت و مشاطگی نے دو چند کر دیا ہو کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ تو با شعور انسان صدق دل سے یہ آرام سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ چہرہ ہی زیادہ فتنے کا موجب ہے اور یہی مستور و مخفی رکھنے کا زیادہ حقدار ہے۔ اے مسلمان مرد و عورت! ذرا غور کرو یہ آیت کتنے ہی گہرے اور اچھے انداز سے سر سے لے کر پاؤں تک عورت کوغیر محرم سے چھپانے کے لیے اور ایسے ذرائع کے دروازے بند کرنے کے لیے اتاری گئی ہے سبحان اللہ جس نے مومنین کی عزت کو محفوظ کرنے کے لیے یہ آیت اتاری اور اسے محکم بنایا چنانچہ زمین پر پاؤں مارنے کی بابت جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت یزید بن حارثہ اپنے کھجوروں کے باغ میں تھیں تو عورتیں ان کے پاس آئیں (فَیَبْدُوَ مَا فِیْ اَرْجُلِہِنَّ وَتَبْدُوْ صُدُوْرُہُنَّ وَذَوَائِبُہُنَّ فَقَالَتْ اَسْمَائُ: مَا اَقْبَحَ ھٰذَا) تو ان کے پاؤں سے پازیبیں ظاہر ہو رہی تھیں اور ان کے سینے بھی ظاہر ہو رہے تھے اور میڈھیاں بھی تو اسماء کہنے لگیں کتنی ہی قباحت ہے اس میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی {وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ… الآیۃ} [1] ان مذکورہ احکام خمار و حجاب سے وہ عورت مستثنیٰ ہے جو عمر رسیدہ ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ : {وَالْقَوَاعِدُ مِنْ النِّسَائِ اللَّاتِیْ لاَ یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ وَّاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ } (النور :۶۰) ’’اور بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (خواہش ہی) نہ ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر |