Maktaba Wahhabi

50 - 131
کرنے والیاں نہ ہوں۔ تاہم اگر اس سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لیے بہت افضل اور بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سننے والے جاننے والے ہیں۔‘‘ تو اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان بوڑھی عورتوں کو جو ولادت کے قابل نہ رہی ہوں اور اس عمرکو پہنچ چکی ہوں کہ اس میں مرد کے لیے جنسی کشش بالکل نہ رہی ہو اور وہ قاعدہ یعنی گھر میں ہی بیٹھی رہنے والی ہوں یعنی سن رسیدہ ہو کر اجازت دی ہے کہ اپنے کپڑے (ثِیَابَھُنَّ)اتار رکھ دیں۔ کپڑوں سے مراد یہ نہیں کہ کپڑے اتار کر بالکل برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو عام لباس کے اوپر اس لیے اوڑھے جاتے ہیں کہ جسم کے وہ حصے جو جسم سے عام طور پر باہر رہ جاتے ہیں (مثلاً چہرہ اور ہاتھ) وہ چھپ جائیں لیکن یہ چھوٹ بھی دو شرطوں کے ساتھ مشروط ہے: ۱: وہ سن رسیدہ ہوں {وَالْقَوَاعِدُ} نہ ان کو شادی کی خواہش ہو اور نہ ہی کوئی ان سے شادی کی خواہش رکھے۔ ۲: وہ زیب زینت کرنے والی نہ ہوں {غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ} یعنی اس بات کا قصد کرنے والی نہ ہوں کہ میری زینت کو دیکھ کر کوئی تلملائے بلکہ جب ضرورت ہو تو پھر پردہ اتارے لیکن اگر کوئی عورت جنسی کشش کھو جانے کے باوجود بناؤ سنگھار کے ذریعہ سے اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہے تو اس تخفیفی صورت سے وہ بھی مستثنیٰ ہو گی اور اس کے لیے مکمل پردہ کرنا لازم ہو گا۔ تو چہرے اور ہاتھوں کو ننگا کرنا اس عورت کے لیے گناہ کا سبب نہیں جس میں مذکورہ دو شرطیں پائی جائیں تو معلوم ہوا کہ جن میں یہ دونوں شرطیں نہ پائی جائیں ان پر چہرہ اور ہاتھ ڈھانپنا ضروری ہے لیکن اسلام کتنا غیرت مند دین ہے فوراً یہ بھی کہہ دیا کہ {وَأَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ} کہ اگر یہ بوڑھی سن رسیدہ عورتیں جن میں مذکورہ دو شرطیں پائی
Flag Counter