Maktaba Wahhabi

52 - 131
کی ادائیگی کی خاطر ترک کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے غیر محرموں سے پردہ کرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب قوی نہ ہوتا تو احرام کی حالت میں چہرے کو کھلا رکھنا جو واجب ہے اس کو ترک نہ کیا جاتا حالانکہ بخاری (۱۸۳۸) وغیرہ کی روایت ہے کہ عورت کے لیے نقاب ڈالنا اور دستانے پہننا احرام کی حالت میں جائز نہیں۔ چنانچہ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منجملہ ان دلائل میں سے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حالت احرام کے سوا خواتین میں چہروں کے پردے کے لیے نقاب اور ہاتھوں کے پردے کے لیے دستانوں کا رواج عام تھا جس کا تقاضا یہ ہے کہ چہرے و ہاتھوں کا پردہ کرنا واجب ہے۔ اس مذکورہ حدیث کی تائید اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی روایت بھی کرتی ہے جو کہ یہ ہے: ۲: اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ((کُنَّا نُغَطِّیْ وُجُوْہَنَا مِنَ الرِّجَالِ وُکُنَّا نَمْتَشِطُ قَبْلَ ذَلِکَ فِیْ الْاِحْرَامِ۔)) [1] ’’ہم احرام میں مردوں سے اپنے چہرے ڈھانپتی تھیں اور اس سے پہلے کنگھی کرتی تھیں۔‘‘ ۳: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ((یَرْحَمُ اللّٰہُ نِسَائَ الْمُہَاجِرَاتِ الْاُوَلِ لَمَّا نَزَلَتْ {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ} شَقَقْنَ مُرُوْطَہُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِہَا)) [2] ’’اللہ تعالیٰ رحم کرے پہلی ہجرت کرنے والی عورتوں پر کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِہِنَّ} نازل ہوا تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑا اور اپنے خمار بنا لیے (چہروں کو ڈھانپ لیا)۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں (فَاخْتَمَرْنَ) کا معنی ہے (اَیْ غَطَّیْنَ وُجُوْھَھُنَّ) یعنی چہروں کو چھپا لیا۔
Flag Counter