Maktaba Wahhabi

67 - 131
اس کا حکم بالترتیب واجب اور دوسری صورت میں کم از کم مستحب ہو گا اور وہ فعل جس میں صرف نقصان ہی نقصان ہو یا نقصان کا پہلو اس کی مصلحت سے زیادہ روشن ہو تو اس فعل کا حکم علی الترتیب حرام یا مکروہ ہو گا چنانچہ اس اصولی قاعدہ کے مطابق غیر مردوں کے سامنے چہرے کا پردہ نہ کرنے پر جب غور کیا جائے تو ببانگ دہل دل بول اٹھتا ہے کہ بے حجابی بے شمار مفاسد لیے ہوئے ہے۔ مصلحت تو ہے ہی نہیںاگر کوئی بنائے تو بھی وہ بالکل بے معنی اور لا یعنی ہے اور اس پر یہ مقولہ فٹ آتا ہے ((رُبَّمَا مَصْلِحَۃٍ یُوْصَلُ بِہَا اِلٰی اَسْلِحَۃٍ۔)) ’’بعض مصلحتیں ہاتھ میں اسلحہ پکڑوا دیتی ہیں۔‘‘ مثلاً بچے نے کسی کو گالی دی اور بڑے کی بے عزتی کی اگر آج اس کو نہ سمجھایا گیا‘ اس پر سرزنش نہ کی گئی تو کل کو اس کو جرأت ہو گی کہ وہ اسلحہ بھی اٹھائے تو یہاں مصلحت یہ سمجھ کر کہ بچہ محسوس کرے گا اس کے ہاتھ میں اسلحہ تھمانے کے مترادف ہے۔ اس طرح پردہ میں تھوڑی سی ڈھیل پوری زندگی کی سیاہی کا موجب بن سکتی ہے اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ مصلحت تو دور کی بات ہے کہتے ہیں کہ چہرے اور ہاتھ کا تو سرے سے پردہ ہے ہی نہیں ذرا اس عجیب فلسفے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ شعراء کا میدان حسن اور عشاق کا وبال جان اور آرام جان تو یہی چہرہ‘ غنچہ دہن‘ آہو چشم آبرو‘ آتشیں رخسار‘ شیریں گفتار‘ خال نمکیں‘ یاقوتی لب‘ سیمین غبغب ہیں پھر بھی یار لوگ کہیں کہ چہرے اور ہاتھ ننگے رکھنے سے کچھ حرج نہیں کوئی عقلمند نہیں بتلا سکتا کہ پان‘ میسی‘ سرمہ‘ انگشتری‘ لونگ‘ نتھ‘ چوڑی‘ کف‘ صابن‘ پاؤڈر‘ لوشن‘ لپ اسٹک‘ ستھرا منہ اور ہاتھ زینت سے کیسے خارج ہو سکتے ہیں جن کے چھپانے کاقرآن مجید نے صاف حکم دیا ہے اور بلاشبہ انہیں کے چھپانے سے تحفظ شرمگاہ کا تحقق ممکن ہو سکتا ہے۔
Flag Counter