Maktaba Wahhabi

29 - 118
کسی کے پاس نہیں ، وہی اس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ ٭ اس کے ایک دوسرے معنیٰ ہیں ۔ اس کا علم آسمان او ر زمین والوں پر بھاری ہے، کیونکہ وہ مخفی ہے اور مخفی چیز دلوں پر بھاری ہوتی ہے۔ ٭ حَفِیٌّ کہتے ہیں پیچھے پڑکر سوال کرنے اورتحقیق کرنے کو۔ یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں اس طرح سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ نے رب کے پیچھے پڑکر اس کی بابت ضروری علم حاصل کررکھا ہے۔ قُلْ لاَّ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًاوَّ لاَ ضَرًّا اِلاَّ مَاشَآئَ اللّٰهُ وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَامَسَّنِیَ السُّوْئُ اِنْ اَنَا اِلاَّ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (۱۸۸) آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کیلئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا ۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔ ٭ ٭ یہ آیت اس بات میں کتنی واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ۔ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے ۔ لیکن ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود اہل بدعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب باور کراتے ہیں حالانکہ بعض
Flag Counter