Maktaba Wahhabi

51 - 118
گزر جانے والے واقعے کے بیان کو (یعنی اس کے پیچھے لگنے کو) قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا اخبار ماضیہ کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقعے میں حسد و عناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں، نفس امارہ کی شورشیں اور سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوادث کا نہایت دلچسپ بیان اور بڑے عبرت انگیز پہلو ہیں، اس لئے اسے قرآن نے احسن القصص (بہترین بیان) سے تعبیر کیا ہے۔ ٭ قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم نہیں جانتے تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو بے خبر قرار نہ دیتا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ پر وحی کے ذریعے سے ہی یہ سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے، آپ نہ کسی کے شاگرد تھے، کہ کسی استاد سے سیکھ کر بیان فرما دیتے، نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے سن کر تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اہم جزئیات کیساتھ آپ نشر کر دیتے۔ یہ یقینا اللہ تعالیٰ ہی نے وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے جیسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔ قَالَ لاَ یَاْتِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖ اِلاَّ نَبَّاْتُکُمَا بِتَاْوِیْلِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَکُمَا ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَہُمْ بِالاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ (۳۷)
Flag Counter