یوسف نے کہا تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا ۔ یہ سب اس علم کی بدولت ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے٭، میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑدیا ہے جو اللہ پرایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں٭۔ ٭ یعنی میں جو تعبیر بتلاؤں گا، وہ کاہنوں اور نجومیوں کی طرح ظن و تخمین پر مبنی نہیں ہوگی جس میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے بلکہ میری تعبیر یقینی علم پر مبنی ہو گی جو اللہ کی طرف سے مجھے عطا کیا گیا ہے، جس میں غلطی کا امکان ہی نہیں ہے۔ ٭ یہ الہام اور علم الٰہی (جن سے آپ کو نوازا گیا) کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا جو اللہ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے، اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ کے یہ انعامات مجھ پر ہوئے۔ قَالَ لَنْ اُرْسِلَہٗ مَعَکُمْ حَتّٰی تُوْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِیْ بِہٖ اِلاَّ اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّااٰتَوْہُ مَوْثِقَہُمْ قَالَ اللّٰهُ عَلیٰ مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ (۶۶) یعقوب نے کہا کہ ! میں تو اسے ہر گز ہر گز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول و قرار نہ دو کہ تم اسے |