Maktaba Wahhabi

3 - 74
پیشِ لفظ اسلام کے معاشی نظام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسلام میں فاضلہ دولت کا صحیح مقام کیا ہے ؟آج کے دورمیں یہ مسئلہ اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ ایک طرف روس ہے جو اشتراکیت کا علمبردار ہے ۔یہ نظریہ فاضلہ دولت تو درکنار کسی شخص کے حق ملکیت كو ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں خواہ اس ملکیت کا تعلق نقدی سے ہویامکان سے۔اورزمین کی ملکیت تو بہت دور کی بات ہے ۔دوسری طرف امریکہ ہے جو سرمایہ داری وسرمایہ پرستی کا علمبردار ہے اور انفرادی ملکیت اور حصولِ دولت کا اس قدر محافظ ہے کہ ا س کے نزدیک حصولِ دولت کا ہر وہ طریقہ جائزاور درست ہے جو قانونی گرفت میں نہ آسکتاہو خواہ وہ طریقہ حصولِ دولت انسانی اخلاقیات کے لیے کتنا ہی مہلک کیوں نہ ہو ۔ امریکہ نوازحکومتیں ایسے سرمایہ داروں اور ایسی سرمایہ داری دونوں کو پورا تحفظ عطاکرتی ہیں ۔انہیں اگر کچھ غرض ہے توصرف اس بات سے کہ عوام اس کے عائد کردہ ٹیکس ٹھیک طورسے اداکیا کریں‘باقی سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ۔ دنیا کے اکثر ممالک انہی دودھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔اسلام ان دونوںمتضاد او رانتہا پسندانہ نظریات کا دشمن ہے اور ان دونوں کے درمیان عدل واعتدال کی راہ اختیار کرتاہے تاہم آج کا مسلمان ان دونوں نظریات میں سے کسی ایک سے اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔جو لوگ اشتراکیت کے حامی ہیں انہوں نے جب دیکھا کہ قرآن انفاق فی سبیل اللہ پربہت زور دیتاہے حتیٰ کہ ضرورت سے زیادہ ہر چیز کو انفاق کے زمرہ میں شمار کرتاہے تو انہوں نے نعرہ لگایا کہ اشتراکیت ہی عین اسلام ہے ۔مزید برآں اسلام سود کو قطعی حرام قرار دیتاہے جس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ سود کے معاملہ میں ایک فریق کا فائدہ اور دوسرے کا نقصان یقینی ہوتاہے تو انہوں نے ہر اس معاملہ کو جس میں ایک کسی فریق کو فائدہ پہنچنے کا زیادہ امکان ہو‘ سود پرہی منطبق کرکے اس کی حرمت کا فتویٰ دے دیاجیسے زمین کی بٹائی یا ٹھیکہ اور مکانوں یا دکانوں کے کرایہ جات وغیرہ اور حد یہ ہے کہ کچھ نیک نیت مسلمان بھی کم ازکم مزارعت کی حدتک اس کے عدمِ جواز کا فتویٰ دینے لگے ۔ یہ درست ہے کہ اسلام میں فاضلہ دولت کوکچھ مستحسن چیزنہیں سمجھا گیا تاہم خود قرآن نے ہی اس فاضلہ دولت کو ’’خیر‘‘کے لفظ سے بھی یاد کیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہواکہ فاضلہ دولت فی نفسہٖ مذموم چیزنہیں بلکہ
Flag Counter