Maktaba Wahhabi

25 - 74
صلہ رحمی کرتے ہیں (۲)بے آسرا لوگوں کو بوجھ اٹھاتے ہیں (۳)بے روزگاروں کو روزگارمہیا کرتے ہیں اور (۴)مہمان نوازی کرتے ہیں اور (۵)حادثات یا مصیبتوں کے وقت حق کا ساتھ دیتے ہیں ۔‘‘ اب دیکھ لیجئے یہ سب باتیں بالواسطہ مال ودولت کے خرچ کرنے سے متعلق ہیں۔ انہی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب دولت خرچ کردی تھی جس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجارت کیا کرتی تھیں ۔ ۲۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دولت اس وقت آئی جب اسلام میں فتوحات شروع ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے خود غنائم اور فے کے اموال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ مقرر فرمادیا ۔عام مسلمان بھی اس دور میںکسی حد تک خوشحال ہوگئے تھے ۔ انہی ایام میں دوسرے مسلمانوں کی دیکھادیکھی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن کو بھی آسودگی او ردنیا کی زیب وزینت کا خیال آگیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیورات وغیرہ کا مطالبہ کردیا ۔وقت کے لحاظ سے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کا یہ مطالبہ کچھ بے جانہ تھا ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قناعت پسند طبیعت پرازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا یہ مطالبہ اتنا گراں گزرا کہ آپ اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے کنارہ کش ہوکر مسجد کے بالاخانے میں آکرمقیم ہوگئے ۔ساتھ ہی ساتھ یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کو طلاق دے دی ہے ۔صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ دراقدس پرحاضر ہوئے اور اند رآنے کی اجازت چاہی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی افواہ سے متعلق استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح صورت حال سے مطلع فرما دیا۔ ا س بات پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنے خوش ہوئے تو بے ساختہ منہ سے اللہ اکبر نکل گیا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قناعت پسندی کی بات تو خود ان سے سن چکے تھے پھر جب اس سامان پر نظر پڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ کے قیام کے لیے اس حجرہ میں اپنے ساتھ لائے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ حضر ت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک چٹائی پر لیٹے ہیں اور پتوں کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننگے بدن میں کھب گئے ہیں۔ ایک طر ف ستوؤں کی ایک تھیلی پڑی ہے اور دوسری طرف پانی کا مشکیزہ ۔یہی کچھ وہ کل سامان ِزیست تھاجو آپ ایک ماہ بھر کی خوراک وغیرہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آبدیدہ ہو کر کہنے لگے’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ایران و روم کے بادشاہ تو عیش و عشرت سے زندگی گزاریں اور مزے اڑائیں اور آپ اس حال میں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’خطاب کے بیٹے!ابھی تک تو اسی خیال میں گرفتار ہے کہ دنیا کی دولت اورفراغت بہت عمدہ چیز ہے۔ ایران وروم کے کافروں کو اللہ نے دنیا میں اس لیے مزے دیے ہیں کہ انہیں آخرت میں سخت عذاب ہونا ہے۔‘‘ (بخاری کتاب النکاح۔ باب موعظۃ الرجل ابنتہ)
Flag Counter