Maktaba Wahhabi

62 - 74
رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے عدم جواز کے راویوں کی طرف رجوع کرنے لگے۔رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پاس پہنچنے والوں میں حنظلہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ الزرقی اور رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی اسید بن ظہیر ہیں۔ ان تینوں کی روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدم جواز مزارعت کی وضاحت یہ فرمائی کہ اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ مالک زمین نہروں اور کھالیوں کے کناروں کی زمین یا ایسی زمین جہاں پانی از خود پہنچ جاتا تھا کی پیداوار اپنے لیے مخصوص کرلیتے تھے۔ علاوہ ازیں بعض مالک زمین یہ شرط بھی کر لیتے تھے کہ بھوسہ سارا ان کا ہوگا اور بعض دفعہ یہ شرط بھی ہوتی تھی کہ گانٹھیں یا گھنڈیاں (پہلی دفعہ گاہنے کے بعد سٹوں میں جو دانے بچ جاتے ہیں)مالک کی ہوں گی۔ یہ شرط سب ایسی ہی تھیں جن سے کسی ایک فریق کا فائدہ یا دوسرے کا نقصان یقینی ہو جاتا تھا۔ چونکہ یہ دھوکے کی بیع تھی لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ رہا نقد کرایہ کی ادائیگی تو ایک روایت میں ہے کہ چاندی سے کرایہ کے تعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا۔ (مسلم ۔کتاب البیوع۔ باب کراء الارض) اور دوسری روایت میں ہے کہ ان دنوں سونے یا چاندی سے زمین کے کرایہ کی ادائیگی کا دستور ہی نہ تھا۔(بخاری کتاب المزارعۃ ) تیسری روایت کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ اپنا خیال پیش فرماتے ہیں کہ جہاں تک سونے چاندی سے کرایہ کی ادائیگی کا تعلق ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (بخاری ۔ کتاب المزارعۃ ۔باب کراء الارض بالذہب والفضۃ) اور چوتھی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع کیا اور مواجرۃ (یعنی روپے نقدی پر کرایہ پر دینے )کا حکم دیا۔(مسلم ایضاً) تنقید : مندرجہ بالا روایات اگرچہ صحیح ہیں تاہم معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جب تحقیق کی نوبت آئی تو حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ مختلف حضرات کو مختلف جواب دیتے رہے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نافع کے ساتھ آپ کے پاس گئے تھے۔ اگر رافع بن خدیج انہیں بھی ایسی ہی توجیہ بتا دیتے کہ اس عدم جواز کا اصل سبب ناجائز قسم کی شرائط ہیں نہ کہ فعل مزارعت اصلاً ناجائز ہے توشاید عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زمینوں کوکرایہ پر دینا کبھی نہ چھوڑتے۔ رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت تو یہ تھی کہ ان کے چچا ان کے گھر آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کام سے روک دیا جس میں ہمارا فائدہ تھا تاہم اللہ اوراس کے رسول کا حکم ماننے میں ہمیں زیادہ فائدہ ہے۔ اب اگر ان ناجائز شرائط ہی کی بات تھی تو ان غلط شرائط کوترک کرنے کے بعد زمین سے بٹائی(مخابرہ ) اور کرایہ (محاقلہ) دونوں صورتوں میں فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا پھر انہوں نے یہ فائدہ کیوں چھوڑ ا تھا؟ توجیہ نمبر ۲ :مزارعت میں جھگڑا: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود تو مخابرہ یعنی بٹائی کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ (ابو داؤد) مگر حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عدم جواز کی توجیہ پیش فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
Flag Counter