Maktaba Wahhabi

31 - 74
چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دن بھی حضر ت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بازی لے گئے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے تو بیت المال سے صرف ۲ درہم روزانہ وظیفہ لینا شروع کیا جس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزارہ نہایت تنگی سے ہوتا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ مقررکرنے والی تین اشخاص پر مشتمل کمیٹی تھی جس نے ایک متوسط گھرانے کے خرچ کے مطابق وظیفہ مقرر کیا تھا لیکن حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا وظیفہ خودمقرر کیا اور سو سائٹی کے ایک غریب تر ین آدمی کے مطابق یہ وظیفہ مقرر کیا(یعنی صرف سات سو تیس درہم سالانہ یا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وظیفہ کا تقریبا چھٹا حصہ)جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زیادہ وظیفہ لینے کے متعلق کہا جاتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما دیتے کہ’’ مسلمانوں کے مال میںمیرا اتنا ہی حق ہے جتنا یتیم کے مال میں ولی کا ہوتا ہے۔‘‘ (کنز العمال ج۔۲۔صفحہ ۳۳۰) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت میں چار گنا اضافہ ہوا۔ بے شمار فتوحات ہوئیں اور کثیر مقدار میں اموال بیت المال میں جمع ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام اہل مدینہ کے وظائف مقرر کئے اور ہر شخص کی اسلامی خدمات کا لحاظ رکھ کراس کا وظیفہ متعین کیا گیا۔ شرکائے بدر صحابہ کا سالانہ[1] وظیفہ پانچ ہزار درہم سالانہ تھا۔ اسی ضمن میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی جب یہ وظیفہ ملناشروع ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے پہلا ملنے والا وظیفہ چھوڑ دیا۔ (فتوح البلدان) زہد ، قناعت اور سادگی کچھ اس طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیعت مں رچ بس گئی تھی کہ بیت المقدس کی فتح کے سلسلہ میں جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہاں جانا پڑا تو آپ کے کرتے میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے اور جب شہر میں داخل ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام اونٹ پر سوار اور آپ اونٹ کی نکیل تھامے آگے آگے پیدل چل رہے تھے۔ خیبر میں جو زمین آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئی تھی وہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے لیے وقف کر دی تھی۔ پھر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی تو ترکہ کے بجائے قرضہ چھوڑا تھا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادا کیا تھاجس کی تفضیل یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا’’ دیکھو، مجھ پر کس قدر قرض ہے؟ ‘‘حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم یا اس کے لگ بھگ قرضہ ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا’’ اگر اس قرض کے لیے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کا مال کافی ہوجائے تو ان ہی کے مال سے قرضہ ادا کر دینا ورنہ پھر بنو عدی بن کعب سے سوال کرنا۔ اگران کے مال بھی کافی نہ ہوں تو پھر قریش سے طلب کرنا۔ ان کے علاوہ کسی سے سوال نہ کرنا۔ اس قرض کو میری طرف سے ادا کر دینا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب قصۃ البیعۃ…)
Flag Counter