Maktaba Wahhabi

66 - 74
کا اصل مقصد مسلمانوں کا آپس میں ذاتی خود غرضی اور طمع کے بجائے ایثار و رفاقت سے کام لینا ہے اور سلسلہ مؤاخات میں یہ مقصد پہلے ہی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ یعنی انصار تواس بات پر بھی تیار تھے کہ اپنی زمین مزارعت یا بٹائی پر دینے کے بجائے مہاجرین کو آدھی زمین کا مالک بنا دیںلیکن مہاجرین کی خود داری نے انصار کے اتنے بڑے ایثار اور قربانی کو قبول نہ کیا تو اب اس کی دوسری صورت یہی باقی رہ جاتی تھی کہ انصار کی زمین یا نخلستان میں مہاجر کام کریںاور پیداوار نصف نصف تقسیم کر لی جائے۔ مہاجرین وانصار کا یہ معاہدہ اگرچہ اپنی ظاہری شکل میںمزارعت ہی نظرآتاہے لیکن مقصد کے لحاظ بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا اس واقعہ کو بٹائی کے جواز کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ۳۔ منکرین مزارعت کی طرف سے اپنے موقف کی صحت کی تائید میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بٹائی سے رجوع کے واقعہ کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب قائلین کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ : (i) یہ توواضح ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بٹائی کا کاروبار ہوتا رہاہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جنہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجل صالح فرمایا تھا، بھی یہ کاروبار کرتے رہے ہیں۔اگر یہ بٹائی کا معاملہ فی الواقع حرام ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے بند کر دینا چاہیے تھا جیسا کہ آپ نے سود اور شراب وغیرہ کے سلسلہ میں کیا۔ (ii) آپ خود بھی فقیہ تھے اورایسے مدبر خلیفہ المسلمین کے بیٹے تھے جنہوں نے دس گیارہ سال تک اسلامی مملکت کا نظم ونسق چلایا اور یہ ناممکن ہے کہ زندگی کے ایک نہایت اہم گوشہ سے تعلق رکھنے والا یہ مسئلہ ان کی نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو یا اس کے متعلق انہیں پورا پورا اور صحیح علم نہ ہوسکا ہو۔ اس وضاحت کے بعد قائلین مزارعت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رجوع کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رجوع کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کو بٹائی کی صحت کے متعلق غلطی ظاہر ہوگئی تھی۔ بلکہ اس کی اصل وجہ زہد و ورع کے سلسلہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شدت احتیاط تھی جوآخری عمر میں وہم کے درجہ تک پہنچ گئی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری عمر میں وضو میںاس قدر مبالغہ کرنے لگے تھے کہ آنکھوں کا اندرونی حصہ بھی دھوتے تھے جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بچوں سے پیار کرتے توپھر کلی کئے بغیر نماز نہ پڑھتے۔ اسی طرح اگر دوران نماز امام کے ساتھ شامل ہوتے تو بعد میں صرف چھوٹی ہوئی نماز ہی ادا نہ کرتے بلکہ سجدہ سہو بھی کرتے تھے۔ (زادالمعاد ج۱ نمبر صفحہ۶۲۶ بحوالہ مسئلہ ملکیت زمین صفحہ نمبر ۶۷) مندرجہ بالا تصریحات سے معاملہ زیر بحث کے بہت سے پہلو سامنے آگئے ہیں۔ یہ تسلیم ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زہد و ورع کے معاملہ میں حد درجہ محتاط تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ جس قدرحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخت تھے اسی قدر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نرم تھے۔
Flag Counter