Maktaba Wahhabi

46 - 74
گئی تو آپ نے اس طبقاتی تقسیم کے فتنہ پر قابو پالیا جو آپ کو جاگیر داری کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ صدقات کی اس ناہموار اور نا مناسب تقسیم سے بھی ایسے نتائج کا سامنے آناا بدی تھا مگر ان تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظر نہ پہنچ سکی ۔اور جب نتائج سامنے آگئے اور اسلامی معاشرت کا توازن درہم برہم ہوگیاتب آپ نے اپنے فیصلہ سے رجوع کا ارادہ کیا مگر افسوس کہ وفات نے آپ کو مہلت نہ دی آپ کی شہادت واقع ہوگئی اور آپ اپنے ان دو ارادو ں کو پورا نہ کر سکے جنہیں وہ پورا کرنا چاہتے تھے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ دولت مندوں سے فاضلہ دولت لے کر حاجت مندوں میں تقسیم کر دی جائے اور دوسرا یہ کہ تقسیم صدقات کے معاملہ میں خدمات و قرابت کے بجائے احتیاج اور مساوات کے اصول کو ملحوظ رکھا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا۔ انہوں نے تقسیم صدقات کے سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاری شدہ پالیسی کو بحال رکھا[1] جس سے طبقاتی تقسیم مزید بڑھتی رہی۔ مزید برآں آپ کے دور میں مرو ان کے تصرفات شروع ہوئے جنہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گوارا کرتے جاتے تھے تو انہی نتائج نے فتنہ کا درکھول دیا۔ سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کو کھلی چھٹی دے دی کہ اپنے جمع کر دہ سرمایہ کے ذریعہ زمین کے گوشے گوشے میں تجارت کرتے پھریں اور اس طرح اسے کئی گنا بڑھالیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے بڑے مال داروں کے لیے یہ بات بھی روا رکھی کہ سواد کے علاقہ یا دوسرے ممالک میں خوب عمارتیں اور زمینیں خریدیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے آخری زمانہ میں پورے اسلامی معاشرہ میں دولت کی تقسیم میں زبردست تفاوت پیدا ہوگیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فاضلہ دولت کی حرمت کا فتویٰ دیا۔ پھر اس فتویٰ کی بنا پر آپ کا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جھگڑا ہوا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بھی علی الاعلان یہی بات کہی ۔جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اپنے فتویٰ سے باز نہیں آئے حالانکہ فاضلہ دولت بعض صحابہ کے پاس دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تھی، دور صدیقی میں بھی اور دور فاروقی میں بھی لیکن اس وقت آپ نے کبھی ایسا فتویٰ نہ دیا جس سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ خود حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی علی الاطلاق فاضلہ دولت کی حرمت کے قائل نہ تھے بلکہ اس حرمت کو حالات سے مشروط رکھتے تھے ۔ یعنی جب اسلامی معاشرہ میں طبقاتی تقسیم فروغ پانے لگے،مالدار زیادہ سے زیادہ دولت مند ہوتے جائیں
Flag Counter