Maktaba Wahhabi

38 - 158
گئی۔میں طے شدہ مقام پر پہنچا تو میرے دوستوں میں سے کوئی بھی وہاں نہ ملا۔وہ سب جا چکے تھے۔میں کہاں جاؤں؟۔مجھے اپنے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اپنے سینے سے ایک طویل سانس نکالی۔کاش! مجھے ان کی جگہ کا پتا چل جائے!۔اب میری گاڑی بڑی آہستگی کے ساتھ چل رہی تھی۔میں سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔اتنے میں ایک دوسری گاڑی کے ہارن نے مجھے ہوش دلایا اور سوچوں کے سمندر سے باہر نکالا۔ میں نے اس گاڑی والے کو بڑے غصے کے ساتھ غضبناک نگاہوں سے دیکھا۔اور اسے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جلدی نہ مچاؤ۔یہ دنیا کہیں اڑی تو نہیں جا رہی۔یہ کہتے ہوئے میں چند منٹ پہلے والی اپنی حالت بھول ہی گیا تھا۔میں نے دل میں یہ ٹھان لی کہ میں آج اپنے گھر میں رات گزاروں گا۔یہ اچھی سوچ تھی۔میری اکلوتی بیٹی بیمار ہے۔لہٰذا بہتر یہ ہے کہ میں اس کے قریب ہی رہوں۔میں نے ایک ویڈیو سنٹر کے سامنے اپنی گاڑی کھڑی کی اور اس دوکان میں داخل ہو گیا۔وہاں سے میں نے کئی فلمیں لیں اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔میں نے گھر کا دروازہ کھولا اور اپنی بیوی کو آواز لگائی کہ چائے اور اخروٹ، بادام، پستا، کاجو وغیرہ()لاؤ۔وہ کمرے میں داخل ہوئی اور اسے دیکھتے ہی میرے دل میں آیا: یہ کتنے ٹیڑھے دماغ والی عورت ہے۔ابھی یہ کہے گی: احمد! اللہ سے ڈرو۔لیکن میں اس کے ان کلمات کو سننے کا عادی ہو چکا ہوں۔حتیٰ کہ ان کلمات کے سلسلے میں میرے احساسات ماند پڑ چکے ہیں۔
Flag Counter