Maktaba Wahhabi

74 - 158
وارفتگی کی حالت میں تھی کہ اسے اس کا بچہ مل گیا۔اس کا اسے دیکھنا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو سوکھ گئے۔اس کے ہوش ٹھکانے پر آگئے۔وہ اس پر لپک پڑی۔اسے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔اس کی بھوک پیاس، اس کی آہ و پکار اور تھکاوٹ پر اسے بہت ہی ترس آیا اور اسے چومتے چومتے اسے سینے سے بھینچ لیا۔اور اسے دودھ پلانے کے لیے اپنا پستان اس کے منہ میں ڈال دیا۔ شفیقِ کائنات، رحیمِ دوجہاں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دیکھا، جسے تھکاوٹ نے نڈھال کر رکھا تھا اور وہ کوئی تھکاوٹ سی تھکاوٹ تھی، وہ اپنے لختِ جگر کو دیکھنے کے لیے تڑپ رہی تھی، اسی فراق میں بچہ بھی پریشان تھا اور ماں بھی بڑی دکھی تھی۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا تذلل و انکساری دیکھی، اپنے بچے کے گم ہو جانے پر اس کی شکستہ دلی کا مشاہدہ فرمایا تو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف توجہ مبذول فرمائی اور یوں گویا ہوئے: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو آگ میں پھینک سکتی ہے؟ یعنی اگر ہم آگ کا آلاؤ جلائیں اور اس عورت کو حکم دیں کہ وہ اپنے بچے کو اس آگ کے شعلوں میں پھینک دے تو کیا خیال ہے۔کیا وہ اس پر راضی ہو جائے گی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سخت تعجب ہوا اور انھوں نے کہا: وہ اپنے بچے کو آگ میں کیسے پھینک دے گی، جبکہ وہ اس کا جگر گوشہ ہے، دل کا ٹکڑا اور اس کا خون ہے۔وہ اسے کیسے پھینکے گی جبکہ وہ تو اسے منہ سے ہی نہیں ہٹا رہی، چومے چلی جارہی ہے اور اپنے آنسوؤں سے اس کا منہ دھوئے دے رہی ہے۔وہ اسے کیسے آگ میں پھینکنے پر رضامند ہوگی، جبکہ وہ
Flag Counter