Maktaba Wahhabi

86 - 158
حرام کے اندر ہی انھیں سخت زد و کوب کرنا شروع کر دیا۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے دین اسلام کا کھلے عام اظہار کرتے چلے گئے یہاں تک کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انھیں گھیر لیا اور اتنا مارا کہ وہ زمین پر گرگئے۔ وہ پیرانہ سالی کو پہنچ رہے تھے، ان کی عمر پچاس سال کے قریب ہو گئی تھی۔فاسق وفاجر عتبہ بن ربیعہ ان کے قریب پہنچا۔ان کے پیٹ اور سینے پر چڑھ کر کودنے لگا۔اور انھیں اپنے ڈبل چمڑے کے جوتوں سے مارنا شروع کر دیا۔انھیں وہ ان کے چہرے پر رکھ کر رگڑتا تھا یہاں تک کہ اس نے ان کے چہرے کا گوشت چھید کر رکھ دیا۔ان کا خون اس حدتک بہہ رہا تھا کہ ان کی ناک کو چہرے سے الگ پہچاننا مشکل ہو گیا۔ان پر غشی کا عا لم طاری تھا۔بالآخر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اپنے قبیلہ بنو تیم کے لوگ آگے بڑھے اور انھوں نے حملہ آور مشرکین کو پیچھے ہٹایا۔ لوگوں نے انھیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر اٹھا لیا۔انھیں اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ یہ تو مرچکے ہیں۔تاہم انھوں نے انھیں ان کے گھر پہنچایا۔ان کے والد اور قوم و قبیلہ کے دوسرے افراد ان کے سرہانے بیٹھ گئے۔وہ انھیں ہلا رہے تھے مگر وہ کوئی جواب نہیں دے رہے تھے۔جب دن کا آخری پہر ہوگیا، شام کے سائے بڑھنے لگے تو انھیں کچھ افاقہ ہوا۔انھوں نے آنکھیں کھولیں اور ان کی زبان سے نکلنے والا پہلا جملہ یہ تھا۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘ یہ سن کر ان کے والد، جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، سخت ناراض ہوئے انھیں برا بھلا کہا اور پھر وہاں سے نکل گئے۔تب ان کی والدہ ان کے
Flag Counter