Maktaba Wahhabi

103 - 108
پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوںاور اگر کسی چیز سے پناہ طلب کرے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں۔ ‘‘[1] اعمال کی قبولیت: اعمال کی قبولیت کا دارو مدار بھی تقویٰ پر ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ 27؀﴾[2] (اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں سے (ان کے اعمال) قبول فرماتا ہے۔) تقویٰ کے اخروی فوائد: جوانسان اللہ کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی وقت اسے تنہا نہیں چھوڑتے۔ بلکہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے مدد گار ہوتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہ مَعَ المُتَّقِیْنَ عليهم السلام (التوبہ: ۳۶) اس باب میں ہم جائزہ لیں گے کہ آخرت میں متقین کے لیے کیا کیا فوائد ہیں۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (۱) متقین کی کامیابی: ﴿ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 52؀﴾[3] (جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے‘ اللہ سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔) متقی انسان کی نظر اپنے ذاتی مفادات پر نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنا تمام تر مفاد اس بات میں سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی دل و جان سے اطاعت کی جائے۔ وہ اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اللہ کا رسول انہیں کوئی حکم دے جسے وہ بجا لائیں۔ ان کی خوشی اور اطمینان اس بات میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی تمام تر اغراض‘ خواہشات اور مفادات کو اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی کے تابع بنا دیا تو اللہ بھی ایسے لوگوں کی حمایت و نصرت فرماتے
Flag Counter