Maktaba Wahhabi

104 - 108
ہیں وہ دنیا میں بھی انہیں کامیاب بنائیں گے اور آخرت میں ایسے ہی لوگوں کے لیے کامیابی و کامرانی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ ١٣٣؁ۙ﴾[1] (اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ (جنت) متقین کے لیے تیار کی گئی ہے۔) اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑ کر جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کام بلا تاخیر کیے جائیں جو اللہ کی مغفرت کا سبب بن سکتے ہیں اور وہ تمام اعمالِ صالحہ ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا بذاتِ خود اللہ کی بخشش کا بہت بڑا سبب ہے۔ استغفار کے لیے کتاب و سنت میں بہت سی دعائیں مذکور ہیں۔ اور ایک دعا کو تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الاستغفار فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام نمازوں کے بعد یہ استغفار پڑھا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَااِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُكَ وَاَنَا عَلٰی عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ اَبُوْءٌ لَك بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ وَاَبُوْءٌ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّه لَایَغْفِر الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ» (اے اللہ! تو ہی میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا۔ میں تیرا بندہ اور غلام ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے میں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے برے پہلو سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے آپ پر تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے۔ کیونکہ تیرے بغیر کوئی بھی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔) جنت کی طرف دوڑ کر آنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ ایسے کام کیے جائیں جن سے جنت کا حصول ممکن ہو جائے۔ جنت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین جیسا ہے۔ عرض کا معنی چوڑائی ہے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جیسے آسمانوں اور زمین کی وسعت کا اندازہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے تو پھر وہ جنت کی وسعت کا کیا اندازہ کر
Flag Counter