Maktaba Wahhabi

64 - 108
جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ کی طرف سے نصف رات یا کچھ کم یا زیادہ جاگتے رہنے کا حکم ہوا۔ ارشادِ ربانی ہے: [يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ Ǻ۝ۙ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا Ą۝ۙ نِّصْفَهٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا Ǽ۝ۙ اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا Ć۝ۭ] (اے کپڑا اوڑھنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات (نمازمیں)کھڑے رہا کیجیے۔ رات کا نصف حصہ یا اس سے کچھ کم کر لیجئے۔ یا اس سے زیادہ کیجئے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجئے۔ ) یعنی رات کا بھی کچھ حصہ اگر انسان جاگ کر گزارے اور اس میں نوافل کا اہتمام کرے تو یہ انسان کے نفس کی اصلاح کے لیے بہت ہی بہتر ہے۔ زیادہ ہنسنا: زیادہ ہنسنا بھی دلوں کو خراب کر دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرمایا کرتے تھے۔ ہنستے نہیں تھے۔ کیونکہ یہ غفلت اور آخرت فراموشی پر دلالت کرتا ہے۔ جبکہ مسلمان کو ہر وقت فکر آخرت سے مضطرب رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا وَّلْيَبْكُوْا كَثِيْرًا ۚ ﴾[1] (انہیں چاہیے کہ تھوڑا ہنسیں اور روئیں زیادہ۔) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تکثر الضحك فان کثرة الضحك تمیت القلب»[2] (زیادہ مت ہنسو۔ کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے) (نوٹ: اس حدیث میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے جبکہ میں نے مضمون کی مناسبت سے ایک ہی چیز کا ذکر کیا ہے) حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کے سامنے کثرت سے رونا چاہیے اور اگر رونا نہ بھی آئے کم ازکم رونے والی شکل بنا لینی چاہیے۔ قیامت والے دن جن سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ عرش کا سایہ مہیا کریں گے ان میں سے ایک وہ ہے جو رات کو اللہ کے خوف سے روتا ہے[3]۔ دوسری حدیث میں ارشادِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ دو آنکھوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ میں نہیں ڈالیں گے ایک وہ جو رات کو میدانِ جہاد میں پہرہ دیتی ہے اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روتی ہے۔ جب کہ زیادہ ہنسنا مومن کا شیوہ نہیں۔ البتہ تبسم کرنا مسنون ہے۔
Flag Counter