Maktaba Wahhabi

65 - 108
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا خطبہ دیا کہ اس جیسا خطبہ میں نے نہیں سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم وہ باتیں جان لو جن کا مجھے علم ہے تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ۔ اس کے بعد صحابہ ؓ نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کی آہ و زاری کی آوازیں آرہی تھیں[1]۔ ساتواں ذریعہ‘ فلسفہ قربانی: قربانی کے معنی ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی قربت اور نزدیکی حاصل کی جائے خواہ نماز ہو یا روزہ‘ زکوٰۃ یا جہاد فی سبیل اللہ۔ اصطلاحی معنوں میں قربانی سے مراد وہ جانور ہے جو عید کے دن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢؀ۙ﴾[2] (کہہ دیں۔ بے شک میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے۔ جو جہانوں کا رب ہے۔) قربانی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کا احیاء ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کی کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کریں۔ پھر اس کے فدیہ میں مینڈھا عطا کیا اور خلیل اللہ نے اپنے فرزند کے بدلے اس کو ذبح کیا۔ جانی قربانی سے پہلے مالی قربانی کی ضرورت ہے ترقی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہوتی ہے۔ جان و مال دونوں عطیہ الٰہی ہیں۔ ضرورت پرجان اور مال دونوں قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا چاہیے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ ان قربانیوں کا کیا مقصد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ پوچھا اس سے ہمیں کیا ملے گا۔ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔ کہنے لگے اور اون کے بدلے بھی؟ فرمایا۔ بھیڑ کی اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی[3]۔
Flag Counter