Maktaba Wahhabi

83 - 108
پہلے سے بھی بڑھا۔ اب باقاعدہ لڑائیاں شروع ہوئیں۔ غزوہ بدر‘ احد‘ خندق اسی کا نتیجہ ہیں۔ دوسری طرف یہود بھی قریش کے مدد گار بن گئے۔ چنانچہ بنو قینقاع‘ بنو نظیر اور بنو قریظہ بھی لڑائی پر اترے اور مغلوب ہو کر خیبر چلے گئے اور وہاں سے متفقہ حملہ کا ارادہ کیا۔ بالآخر خیبر بھی فتح ہوگیا۔ مکہ فتح ہوگیا۔ ضدی اور اکھڑ قبائل ہوازن اور ثقیف بھی رام ہو گئے۔ ادھر عیسائی بھی شرارت پر اتر آئے۔ موتہ کے مقام پر رومی شکست کھا گئے۔ جو کہ تبوک کے معرکہ کی بنیاد بنی۔ ۹ہجری تبوک کی جنگ کا واقعہ پیش آیا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس ِ نفیس شامل تھے۔ لیکن اس مقام پر جنگ نہ ہوئی۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی تعمیر کردہ مسجد ضرار کو منہدم کیا۔ اسی سال آپ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحج بنا کر روانہ کیا۔ ۱۰ ہجر ی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حج کا فریضہ ادا کیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا اور آخری حج تھا۔ اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ۱۲ ربیع الاوّل ۱۱ہجری کو اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دارِ فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری زندگی لوگوں کو اللہ کے خوف اور تقویٰ کی تلقین کرتے رہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ وَاَنْ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّقُوْهُ ۭ وَهُوَ الَّذِيْٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 72؀﴾[1] (اور نماز قائم کرو۔ اور اس (اللہ ) سے ڈرو وہی ہے جس کے پاس تم سب اکٹھے کیے جاؤ گے۔) حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرما ںبردار بن کر نماز قائم کریں۔ اور اللہ سے ڈریں۔ اس آیت میں نماز کی تاکید ہے اور اس کے بعد تقویٰ کا حکم ہے۔ نماز کی پابندی تقویٰ اور للہیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۭ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةٌ ۭ وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ۭ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ 10 ؀﴾[2] (کہہ دیجئے اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو۔ اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ جو لوگ نیک کام کرتے ہیں۔ ان کیلیے اس دنیا میں بھلائی ہے اور
Flag Counter