Maktaba Wahhabi

114 - 108
اور ماعز بن مالک اسلمی دونوں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ واپس چلے جائیں۔ سزا سے بچ جائیں اور جا کر خود ہی اللہ تعالیٰ سے استغفار کر لیں۔ مگر ان لوگوں کو آخرت کے عذاب کی اتنی فکر تھی کہ دنیا کے عذاب یعنی رجم کو قبول کر لیا۔ تاکہ آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ کیونکہ وہ عذاب تو جان کو چمٹ کر رہ جانے والا ہے۔ یہ اللہ کے خوف اور تقویٰ کے واضح مظاہر ہیں۔ جب انسان کے دل میں تقویٰ پیدا ہوجاتا ہے تو وہ مالی یا جانی نقصانات کو تو گوارا کر لیتا ہے مگر کسی بھی طرح اپنے رب کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ وہ رب سے ملاقات ایسی حالت میں کرنا چاہتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو۔ نفس انسان کی اصلاح کے لیے تقویٰ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ جس دل میں تقویٰ آگیا سمجھ لو وہ کامیاب ہوگیا۔ اس لیے کہ تقویٰ اسے گناہوں اور اللہ کی نافرمانیوں سے روک کر رکھے گا۔ نیکی اور ثواب کے کاموں پر آمادہ عمل کرے گا۔ اگر کسی وقت وہ غلطی سے گناہ کی لپیٹ میں آ بھی جاتا ہے تو جب تک اس کا کفارہ نہیں ادا کر لیتا یا اس کی سزا نہیں بھگت لیتا اس وقت تک اسے چین ہی نہیں آتا۔ صحابہ کے دلوں میں یہ تقویٰ صحیح معنوں میں جاگزیں ہو گیا تھا تو اس نے ان کی زندگیوں کی کایا پلٹ دی۔ وہ راہزن سے رہبر بن گئے۔ خوف الٰہی کی لہر نے تمام معصیتوں کو نگل لیا‘ گناہوں کی ظلمتوں کا خاتمہ کر دیا اور ہر طرف خیر ور شد کی روشنی پھیل گئی۔ آج ہمارے معاشرے میں جو ہر طرف برائی نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ تقویٰ اور خوفِ الٰہی کا فقدان ہے۔ اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہر دل میں خوفِ الٰہی کی شمع فروزاں کی جائے تاکہ گناہوں سے بچنے کا جذبہ عام ہو۔ انسان حدودِ الٰہی کو توڑنے اور اخلاقی ضابطوں کو پامال کرنے سے باز رہیں۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی: «اِتَّقِ اللّٰهَ حَیْثُ مَاکُنْتَ»[1] (تو جہاں کہیں بھی ہو۔ اللہ سے ڈرتا رہ۔)
Flag Counter