Maktaba Wahhabi

68 - 108
محض جذبہ اشتیاق ہی تھا کہ عورتوں کا الگ سے نام لیا جانا چاہیے ورنہ ہر زبان کا اور اسی طرح عربی زبان کا دستور ہے کہ جب کبھی مردوں عورتوں کے مشترکہ اجتماع سے خطاب کیا جاتا ہے تو جمع مذکر کا ہی صیغہ استعمال ہوتا ہے جبکہ اس میں عورتیں بھی شمار ہوتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ احزاب کی کئی آیات میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا الگ سے ذکر کیا۔ اور یہ آیت تو خاص عورتوں کے لیے ہے۔ ارشادِ رباری تعالیٰ ہے: ﴿يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا 32؀ۚ وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ (الاحزاب: ۳۲‘ ۳۳) ’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان سے بات نہ کرو ورنہ جس شخص کے دل میں رو گ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہٰذا صاف سیدھی بات کرو۔ اور اپنے گھروں میں قرار پکڑے رہو۔ پہلے دورِ جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرتی پھرو‘ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو‘ اللہ اور اس کے رسولِ کی اطاعت کرو۔) اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضي الله عنهن کو آداب سکھا رہے ہیں۔ چونکہ تمام عورتیں انہی کے ماتحت ہیں۔ اس لیے یہ احکام سب مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ پس فرمایا کہ تم میں سے جو پرہیز گاری اختیار کرے وہ بہت بڑی فضیلت اور مرتبے والی ہے۔ نامحرم مردوں سے جب تمہیں بات کرنی پڑے تو شیریں اور لوچ دار آواز کی بجائے روکھی اور معقول حد تک بلند آواز میں بات کرو۔ دبی زبان میں ہرگز بات نہ کی جائے جو نرم گوشہ لیے ہوئے ہو۔ لوچ دار اور شیریں آواز بذات خود دل کا مرض ہے۔ پھر اگر مخاطب کے دل میں پہلے سے ہی یہ روگ موجود ہو تو وہ صرف اسی لذیذ گفتگو سے کئی غلط قسم کے خیالات اور تصورات دل میں جمانا شروع کر دے گا۔ عورت کی آواز پر اصل پابندی یہ ہے کہ غیر مرد اس کی آواز نہ سننے پائیں یہی وجہ ہے کہ عورت اذان نہیں کہہ سکتی۔ نماز
Flag Counter