Maktaba Wahhabi

109 - 108
فتنہ میں عام طور پر ایسی چیزوں سے آزمائش ہوتی ہے کہ دوسرے تو کیا بسا اوقات خود مفتون کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کس آزمائش میں پڑ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ مال اور اولاد میں آزمائش اس طرح کرتا ہے کہ کون ان فانی اور زائل ہونی والی چیزوں میں پھنس کر آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ اب مال کا معاملہ ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ضروریات زندگی کو مال سے وابستہ کر دیا ہے۔ جس کے پاس زیادہ مال ہو وہ زندگی میں زیادہ آسودگی اور آسائش حاصل کر سکتا ہے۔ جس کے پاس مال کم ہے اس کے تنگدستی کے زیادہ امکانات ہیں۔ اب بنو اسرائیل کے یہ دونوں انسان اس خزانے کو دوسرے کے سپرد کرنے پر مصر ہیں۔ کہیں یہ مال ایسا نہ ہو جس پر ان کا حق نہیں اور اس مال ناحق کی وجہ سے انہیں کوئی اخروی سزا نہ بھگتنا پڑے اور شک والی چیز کو چھوڑ دینا ہی تقویٰ ہے۔ چاہے اس شک والی چیز سے انسان کا کتنا ہی بڑا فائدہ کیوں نہ منسلک ہو۔ ان دونوں متقی انسانوں نے اس مال و دولت سے اللہ کے خوف کی وجہ سے بے اعتنائی برتی اور اللہ تعالیٰ نے انہی کی اولاد کو وہ مال جائز حق کے طور پر لوٹا دیا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: «دَعْ مَایُرِیْبُكَ اِلٰی مَالَا یُرِیْبُكَ»[1] (شبہے والی چیز کو چھوڑ کر وہ چیزیں اختیار کرو جو شک والی نہیں۔) (۲) کفل کا واقعہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ بنی اسرائیل میںکفل نامی ایک شخص تھا۔جو دن رات برائی میں پھنسا رہتا تھا۔ اپنی خواہشات ِ نفس کا غلام تھا۔ اس نے ایک ضرورت مند عورت کو ۶۰ دینار دے کر زنا کاری کے لیے آمادہ کر لیا۔ جب وہ تنہائی میں برے کام کے لیے تیار ہو گیا تو وہ عورت بے اختیار رونا شروع ہو گئی۔ چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ کفل نے حیرانی سے پوچھا کہ اس وقت یہ ڈر اور رونا کیسا؟ اس پاک باز اور شریف النفس لڑکی نے روتے ہوئے جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ
Flag Counter