Maktaba Wahhabi

59 - 108
«اِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِیْسُ الصَّالِحِ والجلیس السُّوءِ کَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنافِخ الْکِیْرِ. فحامل الْمِسْكِ اِمَّا اَنْ یُحْذِیَكَ وَاِمَّا اَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ وَاِمَّا اَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِیْحَاً طِیِّبَةً وَنَافِحُ الْکِیْرِ اِمَّا اَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَكَ وَاِمَّا اَنْ تَجِدَمِنْهُ رِیْحًا خَبِیْثَةً»[1] (نیک اور برے ساتھی کی مثال ایسے ہی ہے جیسے خوشبو والا اور بھٹی جھونکنے والا۔ خوشبو والا یا تو تمہیں خوشبو تحفہ دے گا یا تم اس سے خوشبو خریدو گے۔ یا اس کا خوشگوار جھونکا ہی تمہیں آلگے گا۔ جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلا دے گا یا کم ازکم اس سے تمہیں بدبو ہی پہنچے گی۔) اس مثال سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ برے آدمی کی مصاحبت ہر طرح نقصان ہی پہنچانے والی ہے۔ اس لیے ہمیں اچھے دوستوں کی رفاقت ڈھونڈنا چاہیے۔ جھوٹی تمنائیں: دل کی دوسری خرابی یہ ہے کہ انسان میں کثرت سے خواہشات اور تمنائیں انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی ہیں۔ کسی کی تمنا مال ودولت کی کثرت ہے۔ کوئی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ کسی کی خواہش ہے کہ اسے یورپ کے کسی ملک کا ویزا مل جائے اور کوئی یہ چاہتا ہے کہ اسے حکومت و اقتدار مل جائے۔ ان خواہشات کی تکمیل کے لیے پھر انسان حرام و حلال کی بھی تمیز نہیں کرتا۔ جب موت کے وقت حقیقت کا پردہ اس کی آنکھوں سے اٹھے گا تو حسرت و ندامت کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ ﴾[2] (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو۔ ہر نفس کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔) اس انسان کے لیے مبارک ہو جو نیکی کرنے والا ہو اور نیکی کا حکم دینے والا ہو۔ اور نیک لوگوں کی دوستی اختیار کرنے والا ہو۔ بعض دفعہ صرف نیکی کی چاہت کرنے پر بھی وه
Flag Counter