Maktaba Wahhabi

60 - 108
اجر مل جاتا ہے جیسے کہ اس نے وہ نیکی سر انجام دی ہو۔ مثلاً کوئی آرزو کرے کہ کاش میرے پاس بھی دولت ہوتی تو میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا اور رشتہ داروں کے ساتھ مالی تعاون کرتا۔ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزانہ صبح سحری کے وقت ایک فرشتہ ندا کرتا ہے۔ یا بَاغِی الخیرِ اَقْبِلْ۔ اے نیکی کے متلاشی !نیکیوں میں آگے بڑھتا چلا جا۔ غیر اللہ سے محبت: دل کی بیماریوں میں سے سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے اپنے تعلقات اور امیدیں استوار کرے۔ جب آدمی غیر اللہ کا سہارا ڈھونڈ لے تو اللہ تعالیٰ اسے اسی کے سپرد کر دیتا ہے۔ اسے ذلتوں اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر اللہ کا سہارا رکھنے والا ایسے ہی ہے جیسے مکڑی کا گھر۔ مکڑی نے جو جال بن کر گھر بنایا ہے اس سے نہ سردی سے بچاؤ ہوگا اور نہ ہی گرمی سے۔ کیا فائدہ ہے ایسے گھر کا جو نہ سردی میں اچھی پناہ گاہ ہو اور نہ ہی گرمی میں ۔ غیر اللہ کا سہارا تو بہت ہی کمزور اور ناپائیدار ہے۔ سوال کی ممانعت: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یمن کے لوگ حج کے لیے آتے لیکن زادِ راہ یا سفرِ خرچ ساتھ نہ لاتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ پھر مکہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کر دیتے۔ اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری ۔کتاب المناسک ) ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٧؁﴾[1] (زادِ راہ ساتھ لے لیا کرو۔ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ اے عقل والو۔ میری نافرمانی سے بچو۔) ضرورت کے وقت مانگنا اگرچہ ناجائز نہیں۔ مگر اسلام نے سوال کرنا اچھا نہیں سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دینے والاہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہترہے۔ بلا ضرورت اور پیشہ کے طور پر مانگنا تو بدترین جرم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخص مانگنے کو عادت بنا لے گا وہ قیامت کو اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ ہوگا[2]۔
Flag Counter