Maktaba Wahhabi

99 - 108
ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ یہ ساری محنت اور کوشش سیدنا طفیل بن عمرو الد وسی کی تھی۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا۔ اللہ کا ڈر اور تقویٰ دل میں پیدا ہوگیا۔ اپنی قوم کو بھی اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کام آسان کر دئیے۔ گھر والوں نے فوراً کلمہ طیبہ کا اقرار کرلیا۔ جبکہ قبیلے والوں نے بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد اسلام قبول کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ انہیں میں سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام سے سرفراز کیا جن سے کتب احادیث میں کثیر روایات مروی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى Ĉ۝ۙ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى Č۝ۙ فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى Ċ۝ۭ﴾[1] (جس نے اللہ کے راستہ میں اپنا مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ بھلی باتوں کی تصدیق کی۔ تو ہم اسے آسان راہ پر چلائیں گے۔) جب انسان عزمِ صمیم کے ساتھ اللہ کی رضا مندی کے لیے نکل پڑتا ہے تو راستے کی تمام مشکلات اور مصائب کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتے ہیں۔ اور مقصد کے حصول کو آسان کر دیتے ہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیات سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے نازل ہوئیں۔ جنہوں نے غلام آزاد کیے۔ جنہیں اہل مکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت سزا دیتے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب میں نے ہجرت مدینہ کے سفر میں مشرکوں کے قدموں کی طرف دیکھا اور ہم غارِ ثور میں تھے۔ کفار ہمارے سروں پر تھے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان میں سے کوئی اگر اپنے قدموں کی طرف دیکھ لے تو وہ یقینا ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اے ابو بکر رضی اللہ عنہ !ان دو کے بارے تمہارا کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ ہو۔ (یعنی جن کے ساتھ اللہ ہو۔ کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے) [2]۔ بصیرت: تقویٰ سے ا نسان میں بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ جس کی بناپر وہ اچھی اور بری چیز میں امتیاز کر سکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter