Maktaba Wahhabi

52 - 108
گناہوں سے بچ جاؤ۔ متقی بن جاو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: [يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ١٨٣؁ۙ][1] (اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ ) کیوں نہ ہو کہ یہ مہینہ ایسا ہے جس میں انسان پر نیکیوں کا غلبہ ہوتا ہے اور برائیوں سے دور رہتا ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں: «اذا دخل شهررمضان فتحت ابواب السماء وفی روایة فتحت ابواب الجنة وغلقت ابواب جهنم و سلسلت الشیاطین»[2] (جب رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے‘ ایک روایت میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔) روزے کا مقصد: اللہ وحدہ لاشریک نے روزہ کا مقصد تقویٰ و پرہیز گاری‘ خوفِ باری تعالیٰ اور للہیت بتایا ہے۔ روزہ انسان کو ایک ایسی قوت برداشت سکھاتا ہے۔ جس کی بنا پر انسان اپنے نفس پر کنٹرول کرسکتا ہے۔ روزے رکھنے سے انسان کے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوتا ہے جس کے باعث آدمی اپنے آپ کو تمام اعمال سوء اور اخلاق رذیلہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کے لیل و نہار رسومات قبیحہ سے مبرا اور صاف و شفاف ہو جاتے ہیں۔شب و رَوز ذکر باری تعالیٰ‘ تقویٰ و پرہیز گاری‘ حلاوت ایمانی‘ رکوع و سجود‘ تسبیح و تہلیل‘ خشوع و خضوع‘ صبر و تحمل‘ بردباری جیسی صفات عالیہ میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ روزہ انسان کو ایسی عظیم خوبی سے ہمکنار کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ محرمات سے اجتناب کر سکتا ہے اور دورانِ روزہ جو اشیاء اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہیں ان سے بچ کر یہ سبق سیکھتا ہے کہ اگرمیرے لیے وقتی طور پر حرام اشیاء سے پرہیز کرنا آسان ہے تو مستقل اور ابدی حرام چیزوں سے بچنا کوئی مشکل نہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter