Maktaba Wahhabi

159 - 194
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ فلاں ، شخص قرآ ن کو الٹا پڑھتا ہے تو انہوں نے فرمایا یہ الٹے دل والا ہے۔ [1] ابو عبید کہتے ہیں: اس کی توجیہ میرے نزدیک یہ ہے کہ قرآن مجید کی آخری سورتوں سے ابتدا کرے یعنی معوذ تین سے اور پھر بقرہ کی طرف آئے تو یہ کام خلاف سنت ہے۔ یہ صرف اور صرف بچوں یا اہل عجم کو پڑھانے کی غرض سے صحیح ہو سکتا ہے کیوں کہ ان کے لیے ابتدا میں طویل سورتوں کی تعلیم مشکل ہوتی ہے۔ مزید فرماتے ہیں: امام حسن اور ابن سیرین سے بھی اس کے علاوہ میں کراہت ثابت ہے، ابو عبید کہتے ہیں: مجھے ابن اَبی عدی نے اشعث کے طریق سے حسن اور ابن سیرین سے بیان کیا ہے کہ وہ دونوں قرآن کو شروع سے آخر تک (بالترتیب) پڑھتے تھے۔ اور ادھر ادھر سے پڑھنے کو مکروہ گردانتے تھے۔ کہتے ہیں ابن سیرین نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ترتیب تمہاری ترتیب سے بہتر ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں: وظائف میں جو انہوں نے بدعت ایجاد کی ہے کہ قرآن مجید کومختلف حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور پھر ہر حصے میں مختلف سورتیں بغیر ترتیب کے ذکر کرتے ہیں تاہم لمبی سورتوں کو ان جیسی کم لمبی سورتوں سے ملا کر مزید طویل کر دیتے ہیں تو ایسے وظائف اور ورد حسن بصری اور ابن سیرین کے ہاں مکروہ ہیں تو قرآن کی ترتیب کو الٹا کرنا تو بہت زیادہ کراہت کا باعث ہے۔[2] ابو مجاہد کہتے ہیں: سلف صالحین مصحف کی ترتیب پہ اس لیے حریص تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی ترتیب کا لحاظ رکھتے تھے، جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ وحی نازل ہوتی آپ کاتبین وحی کو بلا کر فرماتے: ’’یہ آیت اس جگہ پہ رکھو جہاں فلاں فلاں موضوع کی آیات ہیں۔‘‘[3]
Flag Counter