Maktaba Wahhabi

27 - 194
اسنادِ قراءت کے سلسلہ کی انتہا جبریل علیہ السلام صرف اللہ تعالیٰ کے پیغام رساں ہیں تو انھوں نے حکیم و خبیر ذات سے کیسے قرآن مجید کو حاصل کیا؟ اہل تعطیل ملک العلام (اللہ تعالیٰ) کی صفت کلام کو ماننے سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور کہتے ہیں جبریل علیہ السلام نے لوح محفوظ سے قرآن کو نقل کیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیْمٌ، فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُونٍ، لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ،﴾ (الواقعۃ: 77 تا 79) ’’بے شک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔‘‘ پس کتاب مکنون سے لوح محفوظ ہی مراد ہے۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جب بھی وحی کا ارادہ کیاتو اس قرآن مجید کا تکلم فرمایا جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت،بخاری میں اس کی دلیل ہے ۔ ’’ جب اللہ تعالیٰ آسمان پہ کسی بات کا فیصلہ فرماتے ہیں تو اطاعت و فرماں برداری میں فرشتے اس کو نافذ کرنے کے لیے اپنے پروں کو حرکت دیتے ہیں گویا کہ زنجیر کے چٹان پہ گھسنے کی آواز ہو پھر جب ان کے دلوں سے گبھراہٹ دور ہوتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا حکم دیا جس سے پوچھتے ہیں وہ کہتا ہے حق فرمایا اور وہ علی ّ کبیر ذات ہے پس اس کو غور سے کان لگا کر سننے والے چوری کی کوشش کرتے ہیں سفیان نے اپنے ہاتھو ں کی انگلیوں سے ان کی کیفیت کی طرف اشارہ کیا……الحدیث [1]
Flag Counter