Maktaba Wahhabi

171 - 222
عمر رضی اللہ عنہ نے تمام علاقوں کی طرف لکھ بھیجا کہ میں نے خالد رضی اللہ عنہ کو کسی ناراضگی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا۔ لیکن لوگوں نے انھیں بڑا سمجھنا شروع کردیا تھا اور ان کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوسکتے تھے، مجھے خدشہ لاحق ہوا تھا کہ لوگ انھی پر اعتماد نہ کر بیٹھیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ سے جو مال لیا تھا، اس کا انھیں بعد میں عوض بھی دیا تھا۔ [1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کی رہنمائی میں زندگی بسر کرنے والے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع کامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں ان کی تربیت کی تھی۔ انھیں قرآن کریم کے مطابق آداب ربانی سکھائے تھے۔ یہ ایسی عظیم کتاب ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل پھٹک ہی نہیں سکتا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے معاملے کے وقت حضرت اشعث رضی اللہ عنہ کہاں تھے؟ تاریخ اس کا تذکرہ نہیں کرتی اور نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجالس اور قادسیہ کے بعد کی جنگوں میں اشعث رضی اللہ عنہ کا ذکر ملتا ہے۔ وہ کہاں چلے گئے تھے؟ کس ملک میں سکونت اختیار کی تھی؟ کسی کو بھی علم نہیں حتی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت شروع ہوگیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اشعث رضی اللہ عنہ کو آذربائیجان کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ [2] سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ خلافت عثمانی میں آذربائیجان کے امیر رہے۔ انھوں نے کبھی کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیا۔ حکومتی کام نبٹانے میں کمی نہیں آنے دی۔ ہمیشہ فتنوں سے علیحدہ رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک آذربائیجان ہی میں رہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے سارے معاملات خراب ہوگئے اور ہر طرف فتنے پھوٹ پڑے جن میں سب سے شدید فتنۂ خوارج تھا۔ اس فتنے نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی
Flag Counter