Maktaba Wahhabi

212 - 222
’’(اے نبی!) یقیناً اللہ نے اس عورت (خولہ بنت ثعلبہ) کی بات سن لی جو اپنے خاوند (اوس بن صامت) کے متعلق آپ سے جھگڑ رہی تھی اور وہ اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ [1] مدینۃ الرسول میں آکر مرثد رضی اللہ عنہ نے فنون سپاہ گری سیکھے اور فداکاری اور جانبازی کی خوب مہارت حاصل کی۔ دعوت اسلام ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی، اس لیے اسلام کو ایسے کار آمد اور بہادر لوگوں کی شدید ضرورت تھی۔ قریش مکہ نے مکہ میں بعض مسلمانوں کو اپنے ہاں قید کر رکھا تھا۔ وہ انھیں مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے روکتے تھے۔ مرثد رضی اللہ عنہ مکہ میں قید مسلمانوں کو قریش کے ٹارچر سیلوں سے اٹھاکر آزاد کرانے اور انھیں مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچانے کا اہم فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ اس عظیم مقصد کے لیے مرثد رضی اللہ عنہ کو مکہ کی طرف کئی سفر کرنے پڑے۔ آخری سفر میں وہ مسلمان قیدیوں کی ایک جماعت لے کر لوٹے تھے۔ اسی مہم کے دوران میں انھوں نے ایک رات ایک قیدی مسلمان سے وعدہ کیا کہ میں تجھے قید سے چھڑاکر اپنے ساتھ مدینہ لے جاؤں گا۔ مرثد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب وعدے کا وقت آپہنچا تو میں چاندنی رات میں قیدی کی طرف چل پڑا۔ مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے پاس پہنچا تو عناق نامی ایک عورت کی مجھ پر نظر پڑ گئی۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ میرے ساتھ رہ چکی تھی، کہنے لگی: تم مرثد ہو؟ میں نے جواب دیا: ہاں! میں مرثد ہوں۔ کہنے لگی: خوش آمدید، مرحبا، آئیے، آج کی رات ہمارے ہاں بسر کیجیے۔ میں نے کہا: عناق! اللہ تعالیٰ نے
Flag Counter