Maktaba Wahhabi

51 - 222
اسی وجہ سے انسان اس میں مگن رہتا ہے یہاں تک کہ جب جان، حلقوم (ہنسلی) کو آپہنچتی ہے تب اسے یاد آتا ہے کہ وہ اس خزانے اور جائداد کو اپنے ساتھ آخرت کے گھر میں منتقل نہیں کرسکتا۔ عنقریب لہلہاتے باغ اور مہکتے باغیچے پیچھے رہ جانے ہیں، اونچی اونچی عمارتیں، وسیع و عریض بنگلے، زر و جواہر یہیں چھوڑ جانے ہیں بلکہ دنیا کی ہر شے دنیا ہی میں رہ جانی ہے۔ انسان اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاسکتا۔ اس صورت میں یہ دنیا حسرت، ندامت، پیشمانی اور تنگی ہی تنگی ہے جو اس سے برداشت نہیں ہوسکتی۔ جبکہ انسان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کے وارث اس کے آس پاس بیٹھے اس کی روح کے جلد پرواز کرجانے کے منتظر ہوتے ہیں۔ مرنے والا سوچ رہا ہوتا ہے کہ کیا اس کے ورثاء اس کی موت کے بعد اس کی کمائی ہوئی دولت و ثروت کی نگرانی کرسکیں گے؟ کیا وہ اس مال میں اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کرسکیں گے؟ یہ سوچ تو اس آدمی کی ہے جو نیک ہے۔ اگر مرنے والا نیکی سے ہٹ کر دوسری راہ پر چلنے والا ہے تو شیطان اس کے ذہن میں خیال ڈالے گا کہ دوسروں کا مال جو تو نے ان سے چھینا یا ظلم کرکے لیا یا کسی بھی حیلے سے ہتھیایا، یہ تو پھر اسی راستے ان کے پاس واپس چلا جائے گا، یعنی جیسے آیا تھا ویسے ہی اڑجائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آخرت میں یہ مال دہکتی آگ میں لے جانے کا سبب بن جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ﴾ ’’بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکارکیا، ہم جلد انھیں آگ میں
Flag Counter