Maktaba Wahhabi

52 - 222
ڈالیں گے ۔ جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم ان کی جگہ دوسری کھالیں چڑھا دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔‘‘[1] صرف یہی نہیں، وہی شیطان جو پہلے دوسروں کا مال چھیننے اور لوٹنے پر ابھارتا تھا، اب اسے حسرت اور ندامت کے وسوسے میں ڈالے گا کہ کیا وارثوں کے پاس مال کی حفاظت اور اس میں اضافے کی اتنی قدرت و طاقت ہے جو اس کے پاس تھی؟ کیا یہ لوگ مال دار بن کر عیش و مستی میں سارا مال اڑائیں گے؟ اب اس بات پر غور کریں کہ کیا یہ مال اس کے بچوں اور اولاد کے لیے، جو رشتہ داروں میں سے اس کے زیادہ قریبی ہیں، ان کے لیے نیک بختی اور خوش بختی کا باعث ہوگا یا بدبختی کا؟ اور کیا یہ مال انھیں صراطِ مستقیم سے ہٹاکر شیطان کے راستے پر تو نہیں چلائے گا؟ دوسروں کا ناحق مال کھانے کو قرآن کریم نے (اَکْلٌ) ’’کھانے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ’’اور تم اپنے مال آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اور انھیں حاکموں کے پاس نہ لے جاؤ تاکہ تم لوگوں کے مالوں میں سے کچھ مال گناہ کے ساتھ کھاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘ [2] نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter