Maktaba Wahhabi

54 - 222
اس کا جواب ہم دیتے ہیں کہ جب انسان دوسروں پر ظلم کا سوچتا ہے تو اس کے جسم میں بھلائی کے متعلق سوچنے والے اعضاء ناکارہ ہو جاتے اور اس احساس سے انسانیت کے عوامل مرجاتے ہیں۔ اب یہ اچھے برے کی تمیز نہیں کرسکتا، بدبو اور خوشبو کے درمیان فرق نہیں کرسکتا، اسی طرح اس کے نزدیک حلال و حرام کے درمیان فرق بھی مٹ جاتا ہے اور وہ اپنی گمراہی میں سرپٹ دوڑتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے۔ اب یہ قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑا ہوگا۔ قارئین! غور فرمائیں، یہ مال، یعنی جو دوسروں سے غصب کیا ہے اور ان کے حقوق دباکر حاصل کیا ہے، اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ کیا جس انسان نے سرکشی اور تکبر کیا، یہ مال اسے چھوڑ دے گا؟ کیا ایسا انسان اللہ تعالیٰ کی سزا اور پکڑ سے بچ جائے گا؟ کیا اس ظالم کو جو غیروں کا مال کھاتا رہا، پل صراط پار کرنے کی طاقت ہوگی اور کیا اس دن یہ اپنا اعمال نامہ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے گا؟ یہ کام اس کے لیے محال ہوجائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس سے ضرور بدلہ لے گا تاکہ حقداروں کو ان کے حقوق لوٹائے جائیں۔ قیامت کو اس انجام سے دوچار ہونے سے انسانوں کے انتہائی خیر خواہ اور ہر دم ان کی بھلائی چاہنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی خبر دار کردیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے ہولناک منظر کی یوں تصویر کھینچی ہے: ((تَأْتِي الإِْبِلُ الَّتِي لَمْ تُعْطِ الْحَقَّ مِنْْہَا، تَطَأُ صَاحِبَہَا بِأَخْفَافِہَا، وَتَأْتِي الْبَقَرُ وَالْغَنَمُ تَطَأُ صَاحِبَہَا بِأَظْلَافِہَا وَ تَنْطَحُہُ بِقُرُونِہَا وَ یَأْتِي الْکَنْزُ شُجَاعًا أَقْرَعَ، فَیَلْقٰی صَاحِبَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَفِرُّ مِنْہُ صَاحِبُہٗ مَرَّتَیْنِ، ثُمَّ یَسْتَقْبِلُہٗ فَیَفِرُّ، فَیَقُولُ: مَالِي وَلَکَ؟ فَیَقُولُ: أَنَا
Flag Counter