Maktaba Wahhabi

81 - 222
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر ان کے حق میں دعا کی: ((اَللّٰہُمَّ! ارْحَمْہُ)) ’’اے اللہ! عبد اللہ پر رحم فرما۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وَجَبَتْ یعنی ان کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوگئی ہے اور یہ اللہ کے راستے میں شہید ہوں گے۔[1] سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ہی جلیل القدر صحابی کی تربیت میں پرورش پائی تھی جن سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محبت کرتے تھے اور ان کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے بچپن اور جوانی کی سرگزشت سے تاریخ کے اوراق خالی نظر آتے ہیں اور ان کے قبول اسلام کی داستان کہ وہ کب اور کیسے مسلمان ہوئے، اس کا بھی کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اِن کی شخصیت کا ظہور ایک غزوے میں محب رسول اور پختہ کار مومن کی حیثیت سے ہوا۔ مدینہ منورہ کی تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منافقین کا کردار کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ یہ وہی گروہ تھا جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر درپردہ اسلام دشمنی کو چھپائے رکھا۔ آستین کے ان سانپوں کا ایک خبث باطن غزوہ بنی مصطلق میں بھی سامنے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ بنو مصطلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف لشکر جمع کررہے ہیں۔ ان کا سالار حارث بن ابوضرار ہے جس کی بیٹی جویریہ رضی اللہ عنہا کو بعد میں ام المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق کی منفی سرگرمیوں کے بارے میں سنا تو تیاری کرکے
Flag Counter