Maktaba Wahhabi

206 - 269
ترجیح دی تھی۔ مصعب رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسہ میں داخل ہو گئے …… اور اپنے معلم محترم سے دین سمجھنے لگے۔ بلاشبہ یہ محمدی مدرسہ اپنے پروگرام اور منہج کے اعتبار سے یکتا تھا جس میں قرآن کی تعلیم اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا تھا۔ یہ مدرسہ مختصر سے عرصے میں ایسے تجربہ کار افراد تیار کرنے لگا جو دین اور زندگی کے ہمہ قسم کے علوم کے ماہر تھے۔ اس مدرسے سے ایسی قیادت کرنے والے لوگ نکلے جو اپنی جنگی مہارتوں اور عسکری فنون کی و جہ سے دنیا پر غالب آ گئے۔ اس مدرسے نے ایسے جانباز تیار کیے جنھوں نے روم و فارس کی فوجوں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ان کے سردار اور سپہ سالار اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے کہ مسلمانوں کے عام فوجی سے لے کر بڑے سے بڑے عہدے والے افسر تک کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے، وہ ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں، ان میں ہرایک اپنے رب کی رضا کے لیے اور اپنے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان کی پروا کیے بغیر لڑ رہا ہے، تو وہ ان فدایانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اسلام کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ جنگ یرموک میں ایک رومی جرنیل نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اے خالد! مجھ سے سچ بولنا، جھوٹی بات نہ کرنا۔ کیا تمھارے نبی پر آسمان سے کوئی تلوار نازل ہوئی ہے جو انھوں نے تمھیں دے دی ہے اور تم اس سے ہر حریف کو شکست سے دو چار کر دیتے ہو؟‘‘
Flag Counter