Maktaba Wahhabi

46 - 269
بنانا۔‘‘ نعمان بن حمید کہتے ہیں: میں اپنے ماموں کے ساتھ مدائن میں سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ وہ کھجور کے پتوں کی ٹوکریاں بناتے تھے، انھوں نے فرمایا کہ میں ایک درہم سے کھجور کے پتے خریدتا ہوں، پھر اس کی ٹوکری بنا کر تین درہم میں بیچتا ہوں۔ ان میں سے ایک درہم پھر اسی کام پر لگاتا ہو، ایک اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں اور ایک درہم صدقے میں دے دیتا ہوں۔ اگر امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ مجھے اس عمل سے منع کریں گے تو میں اس سے باز نہیں آؤں گا۔، آپ رضی اللہ عنہ اپنی امارت کے دور میں روزانہ گھر سے نکلتے اور لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے۔ آپ ان کے مطالبات سنتے تھے۔ آپ بوسیدہ چادر پہنے ہوئے ہوتے تھے۔ ایک دن راستے میں آپ کو ایک آدمی ملا، وہ شام سے آ رہا تھا۔ اس کے پاس انجیروں اور کھجوروں کا بوجھ تھا، اس بوجھ نے اس شامی کو تھکا دیا تھا اور وہ اس تاک میں تھا کہ مجھے کوئی مزدور مل جائے جو میرا بوجھ اٹھا لے اور منزل تک پہنچا دے تو میں اسے اجرت دے دوں گا، چنانچہ اس نے ایک آدمی دیکھا تو اسے اشارہ کیا، وہ آ گیا۔ شامی نے اسے کہا: یہ بوجھ اٹھا لو۔ اس نے اٹھا لیا، پھر دونوں آگے چل پڑے۔ راستے میں وہ لوگوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو ان لوگوں نے انھیں سلام کیا، لوگوں نے کھڑے ہو کر سلام کا جواب دیا اور کہا: ’’امیر پر بھی سلام ہو۔ امیر پر بھی سلام ہو۔‘‘ یہ لوگ کسے امیر کہہ رہے ہیں؟ شامی نے اپنے دل میں سوچا۔ اور اس وقت اس کی دہشت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھ رہے ہیں تا کہ وہ خود سامان اٹھا لیں، وہ کہہ رہے تھے:
Flag Counter