Maktaba Wahhabi

282 - 728
طیبہ میں پڑھائی، حکیم بن عدا کے مکان کے فنا میں پڑھائی، جہاں محمل والے رہتے تھے۔ اور فنائے مکان اس کشادہ جگہ کا نام ہے، جو مکان کے سامنے ہوتی ہے۔ قاموس میں ہے: ’’فناء الدار ککساء ما اتسع من أمامھا‘‘[1] [فناء کساء کی طرح ہے، فنائے مکان اس کشادہ جگہ کو کہتے ہیں ، جو مکان کے سامنے ہوتی ہے] ’’منتہی الأرب‘‘ میں ہے: ’’فناء الدار‘‘ یعنی پیش گاہ فراخ سرائے۔ اس کے بعد ’’خلاصۃ الوفاء‘‘ میں ہے: ’’في روایۃ للثاني: صلیٰ في ذلک المسجد، وھو خلف المجزرۃ التي بفناء دار العداء بن خالد‘‘ اھ۔ یعنی ابن زبالہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں نمازِ عید پڑھی جو اس مجزرہ کی پشت پر ہے، جو عداء بن خالد کے مکان کے فنا میں ہے۔ علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ عداء بن خالد کا مکان جو اوپر والی روایت میں مذکور ہوا، ایک ہی مقام ہے۔ حکیم بن عداء، عداء بن خالد کے بیٹے ہیں اور یہ مکان مصلی کے غربی جانب میں ہے۔ علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے: ’’قلت: وھي دار ابنۃ حکیم بن العداء بن بکر بن ھوازن، و منزلھم مع مزینۃ غربي المصلیٰ‘‘ اھ۔ [میں کہتا ہوں کہ وہ حکیم بن عداء بن بکر بن ہوازن کی بیٹی کا گھر ہے، ان کا یہ مکان مزینہ کے ساتھ عیدگاہ کی مغربی جانب میں ہے] ’’مجزرۃ‘‘ اونٹوں کے مذبح کو کہتے ہیں ۔ صراح اور منتہی الارب میں ہے: ’’مجزر جائے شترکشتن‘‘ [مجزرہ اونٹوں کے مذبح کو کہتے ہیں ] اس کے بعد علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ یہ مسجد جس میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی یہ نماز پڑھی تھی، شاید وہی بڑی مسجد ہے، جو مسجدِ علی رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہے اور شاید یہ مسجد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اس وجہ سے منسوب ہے کہ انھوں نے بھی عید کی نماز اس مسجد میں اس وقت میں پڑھائی، جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، جیسا کہ ابن شبَّہ نے روایت کی ہے۔ اس کے بعد علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ یہ امر مستبعد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک نئی جگہ نماز کی ایجاد کریں ، جہاں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ پڑھی ہو۔ علامہ سمہودی کی عبارت یہ ہے: ’’فلعلہ المسجد الکبیر المعروف بمسجد علي رضی اللّٰه عنہ شامي المصلیٰ مما یلي المغرب متصلاً بشامي الحدیقۃ المعروفۃ بالعریضي، لأن سوق المدینۃ کان ھناک، ولعل نسبتہ إلیٰ علي رضی اللّٰه عنہ لکونہ صلیٰ بہ العید الذي صلاہ للناس، و عثمان رضی اللّٰه عنہ
Flag Counter