Maktaba Wahhabi

301 - 728
مذکور ہے اور وہ حدیث یہ ہے: عن البراء بن عازب رضی اللّٰه عنہ قال: (( لا یضحیٰ بالعرجاء، بیّن ظلعھا، ولا بالعوراء، بیّن عورھا، ولا بالمرضاء، بیّن مرضھا، ولا بالعجفاء التي لا تنقي )) [1] [براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے، جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، نہ ایسے کانے جانور کی، جس کا کانا پن واضح ہو، نہ ایسے بیمار کی، جس کی بیماری واضح ہو اور نہ ایسے انتہائی کمزور جانور کی، جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو] وعن علي رضی اللّٰه عنہ قال: أمرنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أن نستشرف العین والأذن، وأن لا نضحي بمقابلۃ ولا مدابرۃ ولا شرقاء ولا خرقاء۔[2] (ترمذي، ص: ۱۹۲) [علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (قربانی کے جانوروں کی) آنکھیں اور کان غور سے دیکھ لیا کریں اور ہم کسی ایسے جانور کی قربانی نہ کریں ، جس کا کان آگے یا پیچھے سے کٹا ہوا ہو یا اس کے کان میں سوراخ ہو یا وہ چیرا ہوا ہو] ان دو حدیثوں سے صرف لنگڑا، کانا اور مریض اور بہت ہی لاغر اور کان کٹے اور کان پھٹے جانوروں کی قربانی سے ممانعت ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد شعیب آروی۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه سوال: جس جانور کا کان کٹا یا سینگ ٹوٹی یا پاؤں ٹوٹا یا ایک آنکھ پھوٹی یا دونوں آنکھ پھوٹی یا دانت ٹوٹا یا ان سب عضو میں سے اکثر چیز میں نقصان ہو تو اس جانور کی قربانی کرنی جائز ہے یا نہیں اور خصی اور گائے کا سِن کیا ہونا چاہیے؟ جواب: دانت ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی درست ہے، کیونکہ اس کا منع کہیں سے ثابت نہیں ہے۔ باقی مندرجہ سوال جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔ ’’عن علي رضی اللّٰه عنہ قال: أمرنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أن نستشرف العین والأذن، ولا نضحي بمقابلۃ ولا مدابرۃ ولا شرقاء ولا خرقا‘‘[3] (رواہ الترمذي و أبو داود والنسائي و ابن ماجہ، و انتھت روایتہ إلی قولہ: و الأذن) ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہا: ہم کو حکم کیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھ اور کان دیکھ لیا کریں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو یا وہ کن پھٹا ہو یا جس کے کان میں چھید کیا گیا ہو۔‘‘
Flag Counter