Maktaba Wahhabi

323 - 728
من أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أن السنۃ في الصلاۃ علی الجنازۃ أن یکبر الإمام، ثم یقرأ بفاتحۃ الکتاب بعد التکبیرۃ الأولیٰ سرا في نفسہ، ثم یصلي علی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ویخلص الدعاء للجنازۃ في التکبیرات، ولا یقرأ في شيء منھا، ثم یسلم سرا في نفسہ۔ أخرجہ الشافعي في مسندہ، وفي إسنادہ اضطراب، وقواہ البیھقي في المعرفۃ، وأخرج عن الزھري معناہ، وأخرج نحوہ الحاکم من وجہ آخر، وأخرجہ أیضاً النسائي وعبد الرزاق، قال ابن حجر في الفتح: و إسنادہ صحیح، ولیس فیہ قولہ: بعد التکبیرۃ الأولیٰ، ولا قولہ: سراً في نفسہ‘‘[1] یعنی امام شوکانی نے سیل جرار میں کہا ہے کہ سورۂ فاتحہ کا جہراً پڑھنا حدیث میں وارد ہے۔ بخاری وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کسی جنازہ پر سورۂ فاتحہ کو پڑھ کر فرمایا تھا کہ تم کو معلوم ہو جائے کہ یہ سنت ہے اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ قراء ت جہراً ہی تھی، تب ہی تو ان کے ساتھ والے نمازیوں نے بھی اس کو سن لیا تھا اور نسائی نے سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ کو بھی زیادہ کر کے ذکر کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے قراء ت جہراً پڑھی تھی اور اس کا لفظ اس طور پر ہے کہ فاتحہ اور سورۃ کو پڑھا اور جہر کیا اور اس جہر پڑھنے کی وہ حدیث بھی مؤید ہے، جو صحیح مسلم وغیرہ میں عوف بن مالک سے ثابت ہے۔ عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت پر جنازہ کی نماز پڑھی تھی، تو میں نے آپ کی دعا یاد کر لی اور وہ دعا حدیث میں مذکور ہے، کیونکہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو جہراً پڑھا تھا، پس مخافتت کے مندوب ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اگرچہ ابو امامہ بن سہل کی حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ایک صحابی نے اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو خبر دی ہے کہ جنازہ کی نماز میں سنت یوں ہے کہ امام تکبیر کے بعد آہستہ سے سورۂ فاتحہ پڑھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور باقی تکبیرات میں میت کے واسطے دعا کرے اور کسی تکبیر میں قراء ت نہ کرے، پھر آہستہ سے سلام کہے۔ اس حدیث کو امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں اضطراب ہے اور بیہقی رحمہ اللہ نے اس کو مضبوط کہا ہے اور زہری سے اس کا معنی روایت کیا ہے اور حاکم رحمہ اللہ نے دوسرے طریق سے اس کے مانند روایت کیا ہے اور نسائی اور عبدالرزاق رحمہما اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے اور اس میں قول اس کا ’’بعد التکبیرۃ الأولیٰ‘‘ اور ’’سراً في نفسہ‘‘ نہیں ہے۔ نیل الاوطار میں نسائی کے لفظ ’’جہر‘‘ کے تحت میں لکھا ہے: ’’فیہ دلیل علی الجھر في قراء ۃ الصلاۃ في الجنازۃ‘‘ انتھی[2]
Flag Counter