Maktaba Wahhabi

377 - 728
وقال الحافظ ابن حجر في تخریج الھدایۃ: (( وقد ورد في بعض طرقہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أمر رجلا أفطر في رمضان أن یعتق رقبۃ۔۔۔ الحدیث، وأخرجہ الدارقطني عن أبي ھریرۃ: أمر الذي أفطر یوما من رمضان بکفارۃ الظھار، والحدیث واحد، والقصۃ واحدۃ، والمراد أنہ أفطر بالجماع، لا بغیرہ، توفیقا بین الأخبار‘‘[1] [حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہدایہ کی تخریج میں اس سلسلے کی مختلف خبروں میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کے بعض طرق میں یہ مروی ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو گردن آزاد کرنے کا حکم دیا، جس نے رمضان کا روزہ توڑا تھا۔۔۔ الحدیث۔ اس حدیث کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، جس میں اس شخص کو ظہار کا کفارہ دینے کا حکم ہے، جس نے رمضان کا روزہ توڑا تھا۔ یہ حدیث اور وہ واقعہ ایک ہی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص نے جماع کے ذریعے روزہ توڑا تھا نہ کہ کسی اور طریق سے] انھیں مذکورہ روایتوں سے قصداً کھا پی کر روزہ توڑنے والے پر کفارہ واجب کہا جاتا ہے اور ظاہر ہوا کہ ان روایتوں سے مطلوب نہیں ثابت ہوتا۔ ہاں قصداً جماع سے روزہ توڑنے والے پر کفارہ بلاشبہ واجب ہے، کیونکہ اس بارے میں صحاح ستہ و دیگر کتبِ احادیث میں نص صریح موجود ہے اور قصداً کھانے پینے سے روزہ توڑنے کو قصداً جماع سے روزہ توڑنے پر قیاس کرنا ہرگز صحیح نہیں ، کیونکہ دونوں صورتوں میں بڑا فرق ہے۔ پہلی صورت سے دوسری صورت کہیں اَفحش ہے۔ شاہ ولی الله صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ ’’مصفی شرح موطا‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’وغیر جماع را برجماع حمل نتواں کرد زیرا کہ جماع افحش است ولہٰذا در اعتکاف اکل و شرب جائز د اشتند نہ جماع را‘‘[2]انتھی [غیر جماع کو جماع پر محمول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جماع افحش ہے، لہٰذا دورانِ اعتکاف کھانے پینے کو جائز کیا گیا ہے نہ کہ جماع کو] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’والفرق بین الانتھاک بالجماع والأکل ظاھر، فلا یصح القیاس المذکور‘‘[3] [جماع کے ساتھ روزہ توڑنے اور قصداً کھانے پینے سے روزہ توڑنے میں فرق ظاہر ہے، لہٰذا مذکورہ
Flag Counter