Maktaba Wahhabi

392 - 728
فرضیت ناذر کے ذمہ باقی رہ جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے اس بیان میں کہ ’’میری ماں نے حج کی نذر کی تھی اور بغیر حج کے مر گئی‘‘ یہ استفصال نہیں فرمایا کہ تیری ماں حج کی نذر مان کر فوراً مر گئی یا مدت کے بعد مری؟ اس سے معلوم ہوا کہ دونوں حالتوں میں حجِ بدل کے جائز و مشروع ہونے میں حکم مساوی ہے، ورنہ اگر حکم مختلف ہوتا تو استفصال فرمانا ضروری ہوتا اور بغیر استفصال ایک خاص حکم لگانا صحیح نہ ہوتا۔ 4۔ حج فرض بالنذر اور حج فرض بالاستطاعت، یعنی حجۃ الاسلام حکمِ فرضیت میں دونوں متحد ہیں ، اس لیے کہ جس طرح آیتِ کریمہ:﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ [آل عمران: ۹۷] [اور الله کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے] خدائے تعالیٰ کا کلام ہے، اسی طرح آیتِ کریمہ:﴿وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ﴾ [الحج: ۲۹] [اور اپنی نذریں پوری کریں ] بھی اسی کا کلام ہے۔ جس طرح آیتِ اولیٰ استطاعت کی فرضیت پر دال ہے، اسی طرح آیتِ ثانیہ بھی حج کی فرضیت پر دال ہے اور یہ دونوں جس طرح حکمِ فرضیت میں متحد ہیں (بغیر ادا کیے مرجانے کی حالت میں ) بقا حکمِ فرضیت (بذمہ مستطیع و ناذر) میں و جواز و مشروعیتِ حجِ بدل میں بھی متحد ہیں ، جیسا کہ مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے واضح ہوا۔ ہاں صراحتاً ارکانِ خمسہ اسلام سے ہونے میں دونوں مختلف ہیں ، کیونکہ حجۃ الاسلام تو صراحتاً ارکان مذکورہ میں سے ہے اور حج فرض بالنذر صراحتاً ان میں سے نہیں ہے اور اگر زیادہ استقراء کیا جائے تو ممکن ہے کہ احکامِ مذکورہ کے علاوہ اور احکام میں بھی دونوں متحد یا مختلف ثابت ہوں ۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) ٭٭٭
Flag Counter