Maktaba Wahhabi

456 - 728
’’لأنہ إذا ثبت الرضا بالقول، یثبت بالتمکین بالوطي بالأولیٰ، لأنہ أدل علی الرضا‘‘ اھ [جب اس کے بول کر اجازت دینے سے اس کی رضا مندی ثابت ہوجاتی ہے تو مرد کو اپنے اوپر وطی کی قدرت دینے سے تو یہ بالاولیٰ ثابت ہوتی ہے، کیونکہ یہ اس کی رضا پر زیادہ دلالت کرنے والی ہے] فتح القدیر (۲/ ۴۸) نولکشوری میں ہے: ’’بل رضاھا یکون إما بہ أي القول کنعم، ورضیت، وبارک اللّٰه لنا، وأحسنت، أو بالدلالۃ کطلب المھر أو النفقۃ أو تمکینھا من الوطي أو قبول التھنیۃ أو الضحک سرورا‘‘ انتھی [بلکہ اس کی رضا یا تو قول سے ثابت ہوگی، جیسے وہ یہ کہے: ہاں یا میں راضی ہوں یا کہے: الله ہمیں برکت عطا کرے اور تم نے (میرے نکاح کا) اچھا فیصلہ کیا، یا یہ رضا دلالت سے ثابت ہوگی، جیسے عورت کا مہر یا خرچہ طلب کرنا یا مرد کو اپنے اوپر وطی کی قدرت عطا کرنا یا مبارک قبول کرنا یا خوشی سے ہنسنا] صورت مسؤلہ میں خلوتِ صحیحہ سے بھی جو برضا مندی پائی گئی ہے، کتبِ معتبرہ حنفی کے موافق نکاح ہوگیا۔ فتاویٰ ظہیریہ اور فتاویٰ بزازیہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ شامی (۲/ ۳۰۱ مصری) میں ہے: ’’وقولہ: ودخولہ بھا الخ، ھذا مکرر، والظاھر أنہ تحریف، والأصل: وخلوتہ بھا، فإن الذي في البحر عن الظھیریۃ: ولو خلا بھا برضاھا ھل یکون إجازۃ؟ لا، روایۃ لھذا المسألۃ، وعندي أن ھذا إجازۃ، وفي البزازیۃ: الظاھر أنہ إجازۃ‘‘ [اس کا یہ قول: ’’مرد کا اس پر دخول ۔۔۔الخ‘‘ یہ تکرار ہے جو بظاہر تحریف ہے۔ اس میں اصل لفظ مرد کا اس عورت سے خلوت اختیار کرنا ہے۔ بحر میں جو ظہیریہ سے مروی ہے وہ یہ ہے: اگر وہ مرد اس عورت کی رضا سے اس کے ساتھ خلوت کرے تو کیا یہ عورت کی طرف سے اجازت شمار ہوگی؟ نہیں اس مسئلے میں ایک روایت مروی نہیں ہے، لیکن میرے نزدیک یہ اجازت ہے۔ بزازیہ میں ہے کہ بظاہر یہ اجازت ہی معلوم ہوتی ہے] اور بھی اگر بالفرض اس خاص جزئی (خلوتِ صحیحہ برضا) کی تصریح موجود نہ بھی ہو تو بھی اس وجہ سے کہ یہ اصلی کلی ’’فعل یدل علیٰ الرضا‘‘ کے تحت میں داخل ہے اور جزئی من جزئیاتہ ہے، اس نکاح کے ہوجانے میں اشتباہ نہیں ہونا چاہیے۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه الجواب صحیح۔ حررہ: الحقیر حسین بن محمد الأنصاري الیماني، عفا اللّٰه عنہ آمین المجیب مصیب عندي، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ أبو محمد إبراہیم، غفرلہ ولوالدیہ۔
Flag Counter