Maktaba Wahhabi

466 - 728
سوال: باکرہ بالغہ کا نکاح بغیر موجودگی اور بغیر رضا مندی باپ ہندہ کے جو بارہ کوس اپنے علاقہ پر تھا برضا مندی مادر ہندہ و بسکوت خود ہندہ وقتِ اجازت غیر ولی کے ہو گیا۔ باپ ہندہ کا جو ولی ہے، پہلے بھی اس نکاح سے راضی نہیں تھا اور اب بھی نہیں ۔ لہٰذا ایسا نکاح جو وقوع میں آیا ہو، وہ عند الله و عند الرسول جائز اور صحیح نکاح ہے یا باطل اور فاسد قابلِ فسخ ہے؟ جواب: ایسا نکاح جائز نہیں ہے، اس لیے کہ جو نکاح عورت کا بلا اذن اس کے ولی کے ہو، جائز اور صحیح نہیں ہے، بلکہ باطل اور ناجائز ہے اور جبکہ ایسا نکاح صحیح نہیں ہے، بلکہ باطل و ناجائز ہے تو اس کا فسخ کیسا؟ فسخ تو اُس چیز کا ہوتا ہے جو موجود اور ثابت ہو اور جب ایسا نکاح شرعاً ثابت و موجود ہی نہیں تو فسخ کی کیا صورت ہے؟ ہاں ہندہ میں اور اس شخص میں جس کے ساتھ ہندہ کا نکاح کیا گیا ہے، تفریق واجب ہے۔ مشکوۃ شریف (ص: ۲۶۲ چھاپہ دہلی) میں ہے: عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل )) [1]الحدیث (رواہ الترمذي وأبو داود و ابن ماجہ والدارمي) [سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے] نیل الاوطار (۶/ ۲۶ چھاپہ مصر) میں ہے: ’’وقد ذھب إلی ھذا (أي إلی بطلان نکاح المرأۃ بغیر إذن ولیھا) علي و عمر و ابن عباس وابن عمر و ابن مسعود و أبو ھریرۃ وعائشۃ والحسن البصري وابن المسیب وابن شبرمۃ و ابن أبي لیلیٰ والعترۃ وأحمد وإسحاق والشافعي و جمھور أھل العلم فقالوا: لا یصح العقد بدون ولي۔ قال ابن المنذر: إنہ لا یعرف عن أحد من الصحابۃ خلاف ذلک‘‘ انتھی و اللّٰه أعلم بالصواب [علی، عمر، ابن عباس، ابن عمر، ابن مسعود، ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم ، حسن بصری، ابن المسیب، ابن شبرمہ، ابن ابی لیلی، عترہ، احمد، اسحاق، شافعی اور جمہور اہلِ علم رحمہم اللہ اس طرف گئے ہیں کہ عورت کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح باطل ہے، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ ولی (کی اجازت) کے بغیر عقدِ (نکاح) صحیح نہیں ہوتا۔ ابن المنذر نے کہا ہے: کسی صحابی سے اس کے خلاف مروی نہیں ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه سوال: ایک لڑکی جب وہ بالغہ ہو تو بغیر ولی جائز کی اجازت کے بصلاح مادر و نانا و مادر کی نانی کی رضا مندی سے لڑکی نکاح کر سکتی ہے یا نہیں ؟ اور اگر لڑکی نابالغہ ہو تو بلا رضا مندی ولی کے بصلاح مذکورہ بالا لڑکی اپنا نکاح کر سکتی ہے یا نہیں ؟ اور جب لڑکی کی عمر میں شبہہ ہو کہ بالغہ ہے یا نابالغہ تو اس صورت میں بغیر ولی کی رضا مندی کے اور بصلاح
Flag Counter