Maktaba Wahhabi

543 - 728
ہوئی۔ اگر بالقصد نکلے تھے تو اگر اس وقت زید کی نیت ہندہ کے طلاق دینے کی نہ تھی تو بھی رجعی نہیں ہوئی اور اگر اس وقت ہندہ کے طلاق دینے کی نیت تھی تو طلاق رجعی عائد ہوئی، جس میں زید کو اختیار ہے کہ عدت کے اندر اس طلاق کو واپس کر لے اور اگر عدت گزر چکی ہو اور تجدیدِ نکاح پر دونوں راضی ہوں تو تجدیدِ نکاح کر لے۔ ’’عن صفیۃ بنت شیبۃ قالت: سمعت عائشۃ رضی اللّٰه عنہا تقول: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( لا طلاق ولا عتاق في غلاق )) قال أبو داود: الغلاق أظنہ الغضب‘‘[1] (سنن أبي داود، مطبوعہ مصر: ۱/ ۲۱۷) [صفیہ بنت شیبہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: غلاق میں نہ طلاق ہے اور نہ غلام کو آزاد کرنا۔‘‘ امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میرا خیال ہے کہ غلاق سے مراد غضب و غصہ ہے] ’’وقد فسر الإغلاق بالغضب الإمام أحمد أیضاً، وفسرہ أبو عبید وغیرہ بالإکراہ، وفسرہ آخرون بالجنون‘‘[2]کذا قال الحافظ ابن القیم في زاد المعاد (ص: ۲۰۳) [امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اِغلاق کا معنی غضب و غصہ بیان کیا ہے۔ ابو عبید وغیرہ نے اس کا معنی جبر و اِکراہ کیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کا معنی جنون کیا ہے] ثم قال: ’’قال شیخنا: وحقیقۃ الإغلاق أن یغلق علی الرجل قلبہ، فلا یقصد الکلام أو لا یعلم بہ، کأنہ انغلق علیہ قصدہ وإرادتہ‘‘ [ہمارے شیخ نے کہا: اِغلاق کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے لیے اس کا دل بند کر دیا جائے، پس وہ کلام کا قصد کرے نہ اس کا مفہوم جانے، گویا اس پر اس کا قصد و ارادہ بند ہوگیا] ’’قلت: قال أبو العباس المبرد: الغلق ضیق الصدر وقلۃ الصبر، بحیث لا یجد لہ مخلصا۔ قال شیخنا: ویدخل في ذلک طلاق المکرہ والمجنون، ومن زال عقلہ بسکر أو غضب، وکل من لا قصد لہ ولا معرفۃ لہ بما قال، والغضب علی ثلاثۃ أقسام: أحدھا ما یزیل العقل فلا یشعر صاحبہ بما قال، وھذا لا یقع طلاقہ بلا نزاع، والثاني ما یکون في مبادیہ بحیث لا یمنع صاحبہ من تصور ما یقول، وقصدہ، فھذا یقع طلاقہ۔ الثالث أن یستحکم ویشتد بہ فلا یزیل عقلہ بالکلیۃ، ولکن یحول بینہ وبین نیتہ بحیث یندم علی ما فرط منہ إذا زال، فھذا محل نظر، و عدم الوقوع في ھذہ الحالۃ قوي متجہ‘‘ و اللّٰه أعلم بالصواب (زاد المعاد، مطبوعہ نظامي: ۲/ ۲۰۴)
Flag Counter